کپتان ان دنوں زیر عتاب ہیں وہ اپنے ہی دیئے ہوئے بیان کے بوجھ تلے دب گئے ہیں،ان کا قصور یہ ہے کہ انھوں نے ایک منظم ادارے کے حوالہ سے اپنی رائے کا اظہار عوامی اجتماع میں کیا جو کسی اعتبار سے مناسب نہیں تھا،ایک ایسا فرد جو ملک کا حکمران رہا ہو، وہ تو بہت سے راز اپنے سینے میںرکھتا ہے،وہ حالات کی نزاکت کو بھی سمجھتا ہے، اسے یہ ادراک تو کم از کم ضرور ہونا چاہئے کہ کون سی بات کس موقع پر کرنی ہے اور کس سے اجتناب لازم ہے ۔
اس سے قبل ان کے چیف آف سٹاف بھی ایک نجی ٹی وی پر فوج کے حوالہ سے انٹرویو میں ایسی گفتگو فرما گئے کہ جس کو مقتدر طبقہ نے غداری سے تعبیر کیا وہ اِسکی پاداش میں دھر بھی لئے گئے،ان دنوں پابند سلاسل ہیں،کچھ اس طرح کے الزامات کا سامنا کپتان کو بھی ہے، وہ بھی عدالتوں کی یاترا میں مصروف ہیں ، یہ مکافات عمل ہے کہ جس مقام پر ماضی کی اپوزیشن تھی آج کپتان اُسی جگہ کھڑا ہے،جس طرح اس نے اپنے چیف آف سٹاف کے بیان سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا اسی طرح صدر محترم اورپنجاب کے وزیر اعلیٰ نے فوج کے متعلق کپتان کے دیئے بیان سے خود کو علیحدہ کیا ہے۔
کپتان کے عوامی جلسوں میں خطابات بڑے ہی دلچسپ ہوتے ہیں،مہنگائی کے اس دور میں عوام کی پریشانی دور کرنے کے لئے وہ اپنی بات سے مزاح پیدا کرتے ہیں،تاریخ، جغرافیہ، اعدادو شمار کی ایسی درگت بناتے ہیں کہ کئی روز تک سوشل میڈیا پر ان کا چرچا رہتا ہے،اب کی بار انھوں نے سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے لباس اس انداز میں زیب تن کیا، کہ انکی شلوار ہی موضوع گفتگو بن گئی، ان کے پیرو کار اس کے دفاع میں بھی میدان میں آ گئے اور ڈھونڈڈھونڈ کر دلیلیں لانے لگے، غلامی کی یہ نئی شکل سامنے آئی ہے ۔
یہ رویہ اِس بات کی دلیل ہے کہ انھوں نے اپنے فالورز کی تربیت اس انداز میں کی ہے کہ غلطی کو ماننے کی بجائے اس کا دفاع کرنا اولین ذمہ داری ہے۔جب کہ سماج کے سنجیدہ حلقے اس رویہ پر پشیمان ہیں تو عالمی سطح پر کیا تاثر جائے گاکہ ملک کے سابق وزیر اعظم کا جنرل نالج اور معلومات کتنی کمزورہیںاور وہ ہر بات عوامی اجتماعات میں کہہ ڈالتے ہیں جو بڑی حساس ہیں۔ افسوس ناک یہ بھی ہے غلط بات پر بھی انکے لورز سوشل میڈیا پرکپتان کے طرف دار نظر آتے ہیں،کپتان ہر ملبہ قومی اداروں پر ڈال کر خود کو برَی الذمہ خیال کرتے ہیں،انھیں دھمکیاں دیتے ہیں،
اِنکے کمانڈرز بھی انکے قدم پر قدم رکھ رہے ہیں ۔وہ بھی انکی مقبولیت کا خوف دلا کرسرکاری اداروں کو ڈرا رہے ہیں او ر یہ تاثر دے رہے کہ موصوف تو آئین اور قانون سے بالا تر ہیں۔ انکے پیرو کاروں کے حوصلے اس قدر بلند ہیں کہ وہ کپتان کے خلاف کسی بھی قانونی اقدام کی صورت میں ملک کو آگ لگانے کی باتیں سر عام کررہے ہیں۔فیصل آباد میں تحریک انصاف کے جلسہ کی ایک وڈیو بھی سوشل میڈیا پر زیر گردش ہے جس میں نوجوانان قومی پرچم اتار کر اسکی بے حرمتی کررہے ہیں۔ وضع قطع سے یہ تعلیم یافتہ لگتے ہیں جو یہ” وارداتیں“ ڈال رہے ہیں، خود سر اور آپے سے باہر ہیں انھیں معلوم ہے کہ ان کے لیڈر نے جب پارلیمنٹ اور ایوان صدر کا گیٹ توڑا تھاتو انھیں کچھ نہیں کہا گیا، جب وہ ریڈ زون میں دھرنا دیئے بیٹھے رہے جہاں عام فرد کا جانا بھی محال ہے تو آنکھوں کا تارابنے رہے،انھوں نے پولیس سے لوگ چھڑوائے تو قانون حرکت نہیں آیا، معزز عدلیہ کے بار ے میں لب کشائی کی توعدلیہ خاموش رہی،الٹا انھیں صادق اور امین کے القابات سے نوازا گیا،جب ساری اپوزیشن اپنے اپنے مقدمات کا سامنا کررہی تھی انھوں نے سی پیک کے منصوبہ جو ہماری اقتصادی ضرورت ہے اسے ساڑھے تین سال تک التواءمیں ڈالے رکھا،مگر کسی نے سوال نہیں اٹھایا۔
اقتدار سے رخصت ہونے کے بعد جس طرح انھوں نے امریکی سازش کا تذکرہ کر کے خارجہ پالیسی کو پبلک میں زیر بحث لا کر کم عقلی کا ثبوت دیا اورپاکستان کے ٹکرے ہونے کی بات کی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ موصوف جب کنٹینر پر براجمان تھے تو سول نافرمانی کی دعوت کھلے بندوں دیا کرتے تھے، بجلی کے بل اپنے ہاتھ سے جلا کر انھوں نے لاقانونیت کی بنیاد رکھی، اقتدار سے نکلتے وقت یہ عندیہ بھی دے چکے کہ میں الگ ہو کر زیادہ خطرناک ہو جاﺅں گا،وہ بار بار اس کا اعادہ بھی کررہے ہیں،وہ وفاقی دارلحکومت پر چڑھائی کرنے کی دعوت بھی نسل نو کو دے رہے ہیں،اگر کہا جائے کہ وہ ریاستی اداروں کی رعایت کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں تو بے جاہ نہ ہوگا۔ تاریخ کا سبق ہے کہ اس انداز میں اگر کسی سیاسی قائد کو سپیس دی جائے تو وہ اپنی مقبولیت کے نام پر” صرف نظر“ رکھنے کو اپنا حق سمجھتا ہے، اس طرح کا تلخ تجربہ ریاستی ادارے کراچی میں کر چکے ہیں، جس کی بھاری قیمت اس ملک اور کراچی کی عوام نے ادا کی ہے۔
لندن میں مقیم” بھائی جی“ بھی خود کو ریاست سے بالا تر سمجھتے تھے،جب ان کا موڈ بنتا وہ پورا کراچی بند کروا دیتے تھے،اِنکی اندھی تقلید کرنے والوں نے کیا کیا جرم نہیں کئے تھے ،جس کیمونٹی کی بھلائی کا انھوں نے بیڑا اٹھایا تھا اسکی حیاتی ہی اجیرن کئے رکھی،اداروں پر حملہ اِنکے حکم سے ہوتا تھا،سرعام گولیاں چلائی جاتی رہیں،ارض وطن کے سیکورٹی اداروں اور فوج پر وہ کھلم کھلا تنقید کرتے،پاکستانی پرچم کی بے حرمتی انکے ورکرز کے ہاتھوں ہوئی تھی،وہ جلاﺅ، گھیراﺅ کی سیاست کے بادشاہ تھے،عدلیہ، پولیس کے اداروں کو وہ اپنے گھر کی لونڈی سمجھتے تھے،انکی جماعت پوری کی پوری بدعنوانی میں غرق تھی،بھائی جی کو بھی اپنی مقبولیت کا زعم تھا، جس طرح کپتان کے ہر غلط عمل اور بات کا دفاع” آل یوتھ“ کرتی ہے اس طرح الطاف بھائی کی آواز پر بغیر سوچے سمجھے لبیک کہا جاتا تھا،اسکی مخالفت کرنے والوں کو صلواتیں سنائی جاتیں تھیں، اگر زیادہ ضروری ہوتا تو ملزم کو ٹھکانے لگا دیا جاتا، مخالفین کو بے عزت کرنے، گالیاںدینے کا یہ فریضہ آج کل آلِ یوتھ سوشل میڈیا پر دے رہی ہے جس طرح بھائی جی کے پیروکار اخبارات کے ذریعہ دھمکی دیا کرتے تھے۔ کپتان پر انکے خطابات براہ راست نشر کرنے پر پابندی اسی طرح لگائی گئی ہے جس طرح الظاف حسین پر لگائی گئی تھی، دونوں مذکورہ سیاسی راہنماءجس چھتری تلے پروان چڑھے اس کا سب کو بخوبی علم ہے،شائد اسی لئے ان کے لئے نرم گوشہ رکھاجاتا رہا ہے، کسی زمانے میں کراچی والے بھائی ”لاڈلے“ تھے اب انکی جگہ ایک نئے ”لاڈلے“ نے لے لی ہے،اس رویہ پر اپوزیشن بھی شاکی ہے۔
ریاست کا اولین فرض اپنی رٹ قائم کرنا ہے، اس مقصد کے لئے اگر وہ پسند اور ناپسند کا طریقہ اپنا ئے گی تو اُسے ایسے ہی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا، جو کراچی میں درپیش تھے۔مہذب جمہوری دنیا میں کوئی بھی فرد ریاست سے زیادہ طاقتور نہیں ہوتا مقتدر طبقہ پرآئین، قانون کی پابندی اسی طرح لازم ہے جس طرح عام شہری پر فرض ہے۔عوام کو قانون کے احترام کا بھاشن دینے والے عوامی اجتماعات میں حساس موضوعات کو زیر بحث لا کر نجانے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟
اپنی مقبولیت کے زعم میں مبتلا خود سر سیاست دانوں کے لئے نرم گوشہ کی بھاری قیمت ریاست نے جغرافیہ کی تبدیلی کی صورت میں ادا کی ہے اب یہ ریاست اسکی متحمل نہیں ہو سکتی۔