شاعر مشرق ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبالؒؒ سائنس اور روحانیت کی ہم آہنگی کے قائل تھے جو ایک انوکھا اور قابل قدر تصور ہے۔ اقبالؒ زندگی کے ارتقا کے لیے سائنس کو لازمی قرار دیتے ہیں۔ان کے نزدیک زندگی کاارتقا اس تعلق پر منحصر ہے جو اس نے خارجی حقائق سے استوار کیا ہے۔ وہ قرآن کی بنیادی روح کو بھی استقرائی قرار دیتے ہیں۔ان کے نزدیک مسلمانوں کے زوال کا بنیادی سبب استقرائی استدلال سے دوری ہے جو سائنس کی بنیاد ہے۔
عالمی مجلس بیداری فکراقبالؒ کی ادبی نشست، منعقدہ 7ستمبر2022ءمیں ”عشق کی تیغ جگرداراڑالی کس نے“کے عنوان پر ڈاکٹر ضمیر اختر خان نے اپنے خطاب میں بتایا کہ اقبال کی قرآن فہمی نے انہیں علامہ کاگرویدہ کیاہے اوریہ اقبالؒ کی جرا¿ت تھی کہ انہوں نے سب سے پہلے بے خداسائنس کے خلاف اعلان جہادکیا۔مسلمانان اندلس نے عصری سائنس کی بنیادرکھی تھی لیکن سقوط غرناطہ کے بعد سائنس بھی کلیساکے بے رحم ہاتھوں میں چلی گئی اورجب خداوندان کلیسانے سائنس دانوں کو موت کے گھاٹ اتارناشروع کیا تو انتقاماََ سائنس نے بھی مذہب کو خیرآباد کہہ دیا خاص طور پر جب ریاست نے مذہب سے علیحدگی اختیارکی توسائنس کفروالحادکامرقع بن گئی اوریوں بے خدا تعلیم کا آغاز ہوا جس کے نتیجے میں ڈارون، فرائڈ اور مالتھس جیسے مفکرین نے جنم لیااور سائنس وفلسفہ کے خدابیزارنظریات نے اعلیٰ انسانی اخلاق و روایات اور باہمی حسن خلق اوراحترام آدمیت کوبے حیثیت کردیا اوریوں انسانیت تباہی کے دہانے پرآن لگی۔ علامہؒ نے مسلمان کے ذمے لگایاکہ علم کوبھی مسلمان کرے۔ اقبالؒ مسلمانوں کو
دنیاکی قیادت پردیکھناچاہتے ہیں جس کے لیے علم کی طاقت حاصل کرناضروری ہے۔ اپنے شعروں میں سائنسی فلسفہ خوب صورت انداز میں پرو دیا اور امتِ مسلمہ کے لیے ایک وسیع جہانِ فکر بسایا ہے۔
علامہ اقبالؒ کی دانش بہت سے جدید علوم کی جامع تھی۔علامہ کا دور وہ تھا جب سائنس نئی کروٹیں لے رہی تھی اور اس کی پرانی بنیادیں منہدم ہو رہی تھیں۔علامہ اقبالؒ ان تبدیلیوں کو بغور دیکھ رہے تھے اور انھیں سراہتے تھے۔ اگر ان کے کمرے میں پڑی کتابوں کی الماری میں جھانکا جائے تو یہ خوش گوار حیرت ہوتی ہے کہ اقبالؒ کا جدید سائنسی علوم کا مطالعہ کس قدر عمیق اور وسیع تھا۔ان کتابوں میں آئن اسٹائن،میکس پلانک، ہائزن برگ، وائٹ ہیڈ، اڈنگٹن اور دیگر سائنس دانوں اور سائنس سے متعلق لکھنے والے فلسفیوں کی بہت سی کتابیں نظر آئیں گی۔ جب ان کتابوں کی ورق گردانی کی جائے تو جگہ جگہ علامہ نے اپنے قلم سے بہت سی سطروں کو نشان زد کیا ہے جن سے پتہ چلتا ہے کہ وہ یقینا ایک کثیر المطالعہ اور جامع العلوم ہستی تھے۔
علامہ اقبالؒ برصغیر کے ہی نہیں 20ویں صدی کے دنیا کے عظیم شاعر تھے۔ انہوں نے اردو کے علاوہ فارسی میں بھی شعر کہے۔ انہوں نے انگریزی میں اسلامی فکر کی تشکیل جدید اور جامع تصنیف میں پےش کی اور اس حوالے سے اہم کتاب تصنیف کی۔ اقبالؒ مسلمانوں میں بیداری کی تحریک میں عملی طور پر شریک رہے۔خطبہ الہ آباد میں پاکستان کا بنیادی تصور پےش کیا۔ یہ سب باتیں اہم ہیں لیکن ہمیں اقبالؒ کو ان کی مجموعی شخصیت کے طور پر ایک کلیت میں دیکھنا چاہیے خانوں میں بانٹ کر کسی عظیم شخصیت کا جائزہ نہیں لیا جا سکتا۔
اقبالؒ کا قرآن پاک کی جانب بار بار لوٹنے کا اصرار اور اس میں غوطہ زنی کرنا نیز مستغرق رہنا تمام قضیہ کا حل تلاش کردیتا ہے۔ اقبالؒ کی دانش بہت سے جدید علوم کی جامع تھی۔
اقبالؒ سے پہلو تہی کر کے کوئی نوجوان آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اقبالؒ پاکستان کا حقیقی مصور ہے۔ اقبالؒ سائنسدان نہیں تھے لیکن بہت سے سائنسی موضوعات ان کے پیغام فکر کا حصہ تھے۔ وہ اپنے زمانے کے سائنسی موضوعات سے کافی حد تک آگاہی رکھتے تھے اور ان کے فلسفیانہ پہلو پر دسترس رکھتے تھے۔ اقبالؒ سمجھتے تھے کہ جدید طبیعات دراصل روحانیت کی طرف ہی محو سفر ہے کیوں کہ یہ مادیت سے اپنا رشتہ توڑتی چلی جا رہی ہے اور اس سفر میں یہ منزل ضرور آئے گی جب طبیعاتی اور مابعدالطبیعاتی حقائق ایک ہو جائیں گے۔ اقبالؒ کا فکر و فلسفہ مذہب، فلسفہ اور سائنس کے بہترین عناصر کی ہم آہنگی پر مشتمل ہے اور اس کا ایک واضح مقصد انسان کی مکمل اور ہمہ گیر فلاح ہے۔
علامہ اقبالؒ ایک ایسے فلسفی اور مدبر ہیں جن کی ہمہ جہت شخصیت کے مختلف رنگ ہمارے سامنے آرہے ہیں۔ ہم نے ان کو محض شاعر سمجھ کر رٹ لیا ہے جبکہ اقبالؒ ایک روشن خیال اور مستقبل پرست مفکر ہیں۔ان کی جدید علوم خاص طور پر سائنسی علوم میں دلچسپی ان کی شاعری،خطبات اور دیگر تحریروں سے عیاں ہے۔ اقبالؒ نے اپنے شعروں میں سائنس کا فلسفہ خوب صورت انداز میں پ±رو دیا اور امتِ مسلمہ کے لیے ایک وسیع جہانِ فکر بسایا ہے۔ ضروری ہے کہ ہم بحیثیت پاکستانی اور بہ حیثیت ایک سچے مسلمان کے اقبالؒ کے معانی و مطالب کی گہرائی اور مفہوم کو اپنے عمل کا حصہ بنائیں۔