کویت سٹی: امریکی وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے کہا ہے کہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد عسکریت پسند تنظیم القاعدہ دوبارہ سر اٹھانے کی کوشش کر سکتی ہے۔
وائس آف امریکا کے مطابق دورہ کویت کے دوران میڈیا نمائندوں سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ القاعدہ نے 20 سال پہلے افغانستان کو امریکا پر حملہ کرنے کیلئے بیس بنایا تھا تاہم اب وہ ہمارے انخلا اور طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد دوبارہ سر اٹھانے کی کوشش کر سکتی ہے لیکن امریکا افغانستان میں القاعدہ کی واپسی روکنے کیلئے تیار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پوری دنیا کی نظریں اس طرف ہیں کہ اب کیا ہوتا ہے، کیا القاعدہ کے پاس افغانستان میں دوبارہ پنپنے کی صلاحیت ہے یا نہیں؟
امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کا مزید کہنا تھا کہ چاہے وہ صومالیہ ہو یا ایسے علاقے جہاں حکومتوں کی عمل داری نہ ہونے کے برابر ہے وہاں القاعدہ خود کو منظم کرنے کی کوششیں کرتی رہتی ہے۔
آسٹن نے کہا کہ ہم نے طالبان قیادت پر باور کرا دیا ہے کہ ہم ان سے امید کرتے ہیں کہ وہ ایسا ہونے کی اجازت نہیں دیں گے.
گزشتہ دنوں امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین جنرل مارک ملی نے خبردار کیا ہے کہ طالبان افغانستان میں مختلف الخیال مقتدر حلقوں اور تمام اقوام کے نمائندوں کو یکجا کر کے حکومت بنانے میں ناکام رہے تو ملک میں خانہ جنگی ہونے کا خدشہ ہے جو کسی کے بھی قابو میں نہیں آئے گی۔
امریکی نشریاتی ادارے فوکس نیوز سے بات کرتے ہوئے جنرل مارک ملی نے کہا کہ اگر طالبان قومی حکومت بنانے میں ناکام ہوتے ہیں تو اگلے 3 برسوں میں القاعدہ اور داعش جیسی جماعتیں دوبارہ منظم ہوکر ایک نئے اور زیادہ خطرناک روپ میں سامنے آسکتی ہیں۔
امریکی جنرل مارک ملی کا مزید کہنا تھا کہ طالبان اندرون اور بیرون ملک سب کے لیے قابل قبول ایک قومی حکومت بنانے میں کامیاب ہوسکیں گے یا نہیں، اس کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے تاہم یہ بات واضح ہے کہ قومی حکومت کی تشکیل میں ناکامی سے تباہی کا سلسلہ پھر سے شروع ہوجائے گا۔
واضح رہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدے میں ضمانت دی گئی تھی کہ طالبان حکومت افغانستان میں القاعدہ اور داعش کو منظم نہیں ہونے اور افغان سرزمین کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی۔