مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال نے کہا تھاثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں، انہوں نے درست فرمایا ، ردو بدل، تغیر و تبدیلی نہ ہو تو اشیاء کو زنگ لگ جاتا ہے، کاروبار سلطنت اور معاملات دنیا بے معنی ہو جاتے ہیں ، مگر روز روز کی تبدیلیاں بھی کوئی اچھا تاثر نہیں چھوڑتیں، عہدوں کی توقیر ہی ختم ہو جاتی ہے اور عہدوں کی توقیر اور احترام ہی ختم ہو جائے تو ان کی کیا قدر ہو گی؟ ا ن کے آنے جانے سے پھر کیا ہوگا ؟ آنیاں جانیاں ہی ہوں گی اور قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا ، یہ کیسی گورننس اور معاملہ فہمی ہے کہ پنجاب کے لئے کوئی چیف سیکرٹری ،آئی جی پسند ہی نہیں آرہا ،ایک بار پھر پنجاب کو نیا چیف سیکرٹری اور آئی جی دے دیا گیا ہے،اگر دونوں کی تعداد کو گنا جائے تو تین سالوں میں یہ ایک درجن تو بنتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان پنجاب کی انتظامی ٹیم میں تبدیلیاں کر کے نئے چہرے متعارف کراتے رہتے ہیں اور وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو ان کے ساتھ گزارا کرنا پڑتا ہے ۔کاش نئے تعینات ہونے والے چیف سیکرٹری اورآئی جی ان کے ساتھ الیکشن تک چل جائیں ، لگدا نئیں ، یہاں میجر اعظم سلیمان اور عارف نواز جیسے اچھے لوگ نہ چل سکے،یوسف نسیم کھوکھر نہ چلے یہ کس قبیل کے افسر ہیں ؟جلد پتہ چل جائے گا ، اگر نئی ٹیم پہلے سے بہتر ہو تو پھر بھی لوگ کہتے ہیں شائد اب ہی کوئی بہتری آ جائے مگر انہی لوگوں کو لانا تھا تو پھر جواد ملک اور انعام غنی میں کیا برائی تھی ،شائد پنجاب کے ساتھ وزیر اعظم ہاؤس میں بیٹھے بابو ، افسر افسر کھیل رہے ہیں،ایہ لے میرا افسر ، ایہ لے تیرا افسر ،ان کو پتہ ہی نہیں پنجاب میں گورننس کا سٹائل کیا ہے ،ان کو کوئی سمجھانے والا نہیں کہ پنجاب اور کے پی میں بہت فرق ہے اور ان کے ایسے فیصلوں کی وجہ سے پنجاب میں انتظامی طور پر اب ایسا قیاس ہے کہ ،رہے نام اللہ کا۔ اب تو لوگ کہنا شروع ہو گئے ہیں ،جیہڑا مرضی آجائے اور بقول منو بھائی کیہ ہویا اے کجھ نہیں ہویا ،کیہ ہووے گا کجھ نئیں ہونا ، کیہ ہو سکدا اے ،کجھ نہ کجھ تے ہندا ای رہندا ،جو توں چاھندا ایں او نئیں ہونا ،ہو نئیں جاندا کرنا پیندا،عشق سمندر ترنا پیندا ،سکھ لئی دکھ وی جرنا پیندا،حق دی خاطر لڑنا پیندا ،جیون دے لئی مرنا پیندا، ۔
اقتدار کے آخری دو سالوں میں عملی طور پر حکومتیں الیکشن موڈ کی گورننس میں آ جاتی ہیں اور ان سالوں میں تو ارکان اسمبلی،پارٹی ورکروں اور عوام کے ہر قسم کے کام کرنے پڑتے ہیں اور ایسے حالات میں پنجاب کو ایک ایسے چیف سیکرٹری کی ضرورت تھی جو ڈنڈی پٹی یا حکمت سے کام چلاتا اور جسے پنجاب کے طول و عرض ،اسکی رہتل،اس کی سیاست اور کلچر کی سمجھ ہوتی ، وفاقی سیکرٹری کابینہ احمد نواز سکھیرا یا پھر بابر حیات تارڑ بہترین چوائس ہو سکتے تھے انہوں نے الیکشن سٹائل گورننس کے ذریعے پنجاب کو چلانا تھا جس کا فائدہ وزیر اعلیٰ بزدار اور تحریک انصاف کو تو ہونا ہی تھا مگر پنجاب اور اس کے عوام کے معاملات میں بہتری پید ا ہوتی۔
نئے چیف سیکرٹری کامران افضل ضلع شیخوپورہ سے تعلق رکھنے والے ایک شریف النفس ،نستعلیق ، سفید شلوار قمیض ، شیروانی اور واسکٹ پہننے والے پنجابی ہیں ،یہ شائد وزیر اعظم عمران خان جانتے ہوں گے۔ کامران افضل بیس سال کے بعد پنجاب میں تعینات ہوئے ہیں ،وہ پنجاب میں کبھی کسی کلیدی پوسٹ پر بھی نہیں رہے۔آئی جی راؤ سردار ، پنجاب کے راجپوت گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں ان کے متعلق ہمارے دوست راؤ تحسین بہتر روشنی ڈال سکتے ہیں ، سخت گیر افسر ہیں اور عمران خان صاحب کے پسندیدہ بھی مگر حیرت کی بات ہے کہ وہ چیف سیکرٹری سے کافی سینئر بھی ہیں ،اب چیف سیکرٹری پولیس کے معاملات میں مداخلت نہیں کر سکیں گے تو ان کا ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہوم کیا کرے گا؟ آئی جی ،پولیس کے معاملات چلانے کے لئے کس کے پاس جایا کریں گے ؟یہ کون سا گورننس سٹائل ہے جس میں سینئر جونیئر کا کوئی فرق ہی نہیں ہے ،سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو بابر تارڑ کو وزیر اعلیٰ اب بھی جانے نہیں دینا چاہ رہے اور اس کے لئے کوئی انتظامی راہ نکالی جا رہی ہے میرے خیال میں تو تارڑ صاحب کو وفاق میں چلے جانا چا ہئے،اسی طرح پنجاب کے دونوں ایڈیشنل چیف سیکرٹری بھی چیف سیکرٹری سے سینئر ہیں وہ مرکز میں جانے کے بجائے شائد اسی تنخوا پر گزارا کرنا چاہتے ہیں۔یہ سب اپنے طور پر وزیر اعلیٰ کا امتحان ہے۔ان کے نزدیک حالیہ تبادلوں کا ایک مقصد جو دکھائی دے رہا ہے وہ الیکشن تک ایک مستقل اور مضبوط ٹیم تشکیل دے کر نہ صرف عوام کے مسائل موقع پر فوری طور پر حل کرنا ہیں تا کہ آئندہ الیکشن میں پورے طمطراق سے حصہ لیا جا سکے،جس کا ایک ثبوت وزیر اعلیٰ کا خود متحرک ہو کر گھنٹوں کھلی کچہریاں لگانا اور عوام کے مسائل موقع پر حل کرناہے،ان کا یہ کہنا کہ اب محض باتوں سے کام نہیں چلے گا جو جہاں ہے اسے کچھ عمل کر کے دکھانا ہو گا،جو ڈیلیور نہیں کرے گاعوام سے فاصلے رکھے گا،ان کی شکایات کو فوری دو کرنے کی کارروائی نہیں کرے گا وہ اپنے عہدہ پر نہیںرہے گا۔
چیف سیکرٹری ڈاکٹر کامران افضل اور آئی جی راو سردار کو وزیر اعلیٰ نے فری ہینڈ دیا ہے مگر نتائج بھی مانگے ہیں، ان کو جرائم کے خاتمہ اور جرائم پیشہ عناصر کو کچلنے کیلئے کہا ہے،میرٹ اور قانون کی بالا دستی ہر حال میں یقینی بنانے کا ٹاسک بھی دیا گیا ہے،عوام کے جان مال آبرو کا تحفظ پولیس کی بنیادی ذمہ داری ہے امن و امان کا قیام بھی پولیس کی ذمہ داری اس حوالے سے کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہ کرنے کا بھی عندیہ دیا ہے،وزیر اعلیٰ نے تھانہ کلچر بھی تبدیل کرنے کی ہدائت کی ہے، پولیس کو پبلک فرینڈلی بنانے کیلئے بھی اقدامات کیلئے کہا،ان احکامات کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ وزیر اعلیٰ کی توجہ عوام کے دیرینہ مسائل کے حل پر ہے،وقت اور وسائل کے ضیاع کو روکنے اور تمام وسائل عوام پر خرچ کرنے کی روایت اپنا لی گئی ہے مگر دیکھنا ہو گا کہ نئے چیف سیکرٹری اورآئی جی پولیس ان ساری توقعات پر کس طرح اور کب تک پورا اترتے ہیں،ان کے لئے یہ ٹاسک اتنا آسان نہیں ہے ،دونوں اعلیٰ افسروں کو یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ ان کے پیش رو کیا نہ کر سکے جو اب انہیں کرنا ہے۔