دنیا بھر میں ہونے والے انقلابوں اور بغاوتوں کی تاریخ ہمیں یہ سکھاتی ہے انقلابیوں کا اصل امتحان اس وقت شروع ہوتا ہے جب انہیں اقتدار مل جاتا ہے۔ یاد رکھیں حکمرانی کرنا عوام کی معاشی ضرورت کا تحفظ، پر امن بقائے معاشرہ کے لیے بندوق چلانے سے زیادہ مشکل کام ہے جس کے لیے زور بازو سے زیادہ دماغی بصیرت درکار ہوتی ہے۔
اس وقت طالبان پر وہی وقت ہے کہ انہوں نے تاریخ میں اپنے مقام کا تعین کرنا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس چیلنج سے کیسے سرخرو ہوتے ہیں۔ اس وقت دنیا بھر کی نظریں کابل پر ہیں ۔ امریکہ، برطانیہ، یورپی یونین کے صدر ابراہیم رئیسی نے طالبان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغانستان میں عام انتخابات کرائیں اور افغان عوام کی امنگوں کے مطابق وہاں منتخب پارٹی کو اقتدار دیں یہ مشورہ نظریاتی حد تک تو خوب ہے لیکن عملاً یہ ایک ناممکن مفروضہ ہے۔
طالبان کو اس وقت جو سب سے بڑا چیلنج ہے وہ بذات خود طالبان ہیں کہ اس اتحاد کو کیسے رکھا جائے کیونکہ یہ بہت سے چھوٹے بڑے گروپوں کا مجموعہ ہے جو آپس میں معاہدوں کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ اکٹھے چل رہے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ کابل پر قبضے کو تین ہفتے کا عرصہ گزر جانے کے بعد باقاعدہ طور پر حکومت کا اعلان تو کر دیا گیا ہے مگر اس کے ساتھ یہ بتایا گیا ہے کہ یہ عبوری انتظام ہے۔ اصل سیٹ اپ بعد میں آئے گا۔ اس وقت سب سے بڑا ایشو طالبان کی اندرونی صفوں کو ٹوٹنے سے بچانا ہے۔ اتحادی گروپوں کو ساتھ رکھنا اور ان کی معاشی ضرورتوں کا خیال رکھنا ’’تنگ آمد بجنگ آمد ‘‘ سے بچنے کے لیے ناگزیر ہے۔ اس میں لوکل ملیشیا بھی ہے اور انٹرنیشنل پاور بروکرز بھی شامل ہیں۔ ماضی میں بھی طالبان نے صوبہ بدخشاں میں Copper Mining کی آمدنی سے متعلق مقامی گروپوں سے معاہدے کررکھے ہیں جس سے آمدنی کا حصہ تقسیم ہوتا تھا۔ اسی طرح جنگلات کی لکڑی کے بارے میں ایک دوسرے کی حصہ داری کا حق تسلیم کای گیا تھا۔ افیون کی کاشت پر پابندی یا ماضی میں منشیات کے کاروبار میں بھی یہی فارمولا زیر عمل رہا ہے۔
طالبان اتحادی گروپوں اور لوکل ملیشیا کو ساتھ
لے کر نہ چلے تو یہ گروپ طالبان سے الگ ہو جائیں گے جس کا فائدہ طالبان مخالف قوتوں کو ہو گا۔ اس وقت افغانستان میں سب سے خوفناک دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ آف خراسان ہے جسے ISK کے نام سے مغرب میں شناخت کیا جاتا ہے۔ یہ وہی گروپ ہے جس نے 26 اگست کو کابل ایئر پورٹ پر خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کی جس میں 160 افراد مارے گئے جن میں 13 امریکی فوجی بھی تھے جس پر امریکہ نے انتقام لینے کا اعلان کیا تھا۔
اسلامک اسٹیٹ آف خراسان (ISK) کون ہیں یہ دراصل طالبان کا ایک منحرف گروپ ہے جو علیحدگی کے بعد ISK کے نام سے سرگرم عمل ہے۔ ملا عمر کی وفات کے بعد ان کے جانشین ملا اختر منصور نے طالبان کے اندر شدت پسندی کے خاتمے اور سیاسی ریفارم کا عمل شروع کیا تو اس میں بہت سے عناصر جو اپنی بربریت، نسلی تعصب اور قیادت سے آزاد من مانے فیصلوں جیسی خصوصیات کے حامل تھے۔ انہیں یا تو طالبان سے نکال دیا گیا یا وہ خود چھوڑ کر چلے گئے اور اپنا ایک علیحدہ گروپ قائم کر لیا۔ ملا اختر منصور 2016ء میں امریکی ڈرون حملے میں جاں بحق ہو گئے مگر اس گروپ نے اپنی ایک شناخت قائم رکھی۔ اس وقت خدشہ یہ ہے کہ اگر طالبان کے موجودہ اتحاد سے جو بھی Defection ہو گی یہ لوگ ISK میں شامل ہوں گے اور طالبان کے اقتدار کے لیے خطرہ بنیں گے۔ لہٰذا انہیں ساتھ رکھنا بہت ضروری ہے۔ اگر طالبان اقتدار کے دوران ISK اپنی کارروائیاں جاری رکھے گی تو چین کی افغانستان میں اربوں ڈالر کی ممکنہ سرمایہ کاری رک سکتی ہے بیجنگ سارے معاملے کو بہت قریب سے دیکھ رہا ہے۔ ISK اس وقت طالبان کا سب سے بڑا چیلنج ہے جسے سمجھنے کے لیے ہمیں پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کی مثال دینا پڑے گی۔ ISK ایک طرح سے افغانستان کی ق لیگ ہے جو ساری کی ساری راتوں رات ن لیگ سے الگ ہو کر نئی پارٹی بن گئی تھی۔
ISK شیعہ سنی فرقہ بندی میں بہت بدنام ہے اور افغانستان کے شیعہ ہزارہ قبائل کو نشانے پر رکھتی ہے اگر اس نے یہ سلسلہ بند نہ کیا تو خطرہ یہ ہے کہ ایران اپنے شیعہ کی حمایت کے لیے اپنا چھاپہ مار سکواڈ فاطمیون افغانستان میں داخل کر دے گا یہ بہت ہی منظم گروہ ہے جو کمانڈو تربیت یافتہ ہے جس کو ایران اس سے پہلے عراق اور لیبیا میں استعمال کر چکا ہے مگر اس وقت انہیں واپس ایران بلا لیا گیا ہے یہ بڑا مارخور گروپ ہے۔ اب طالبان کو اپنی سیاسی تدبیر سے اس طرح کے حالات سے بچنا ہو گا تا کہ وہ غیر ضروری مہم جوئی میں مشغول ہو کر عدم استحکام کا شکار نہ ہو جائیں۔
ISK کی ہیبت اور دہشت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اب امریکہ میں فوجی سطح پر اس بات پر غور کیا جا رہا ہے کہ دہشت گرد گروپوں کے خاتمے کے لیے امریکہ اور طالبان مل کر جنگ کریں یہ بات ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے جس کا دارو مدار امریکہ طالبان کے آپس کے تعلقات اور چائنا کے کردار کے بعد واضح ہو گا۔
طالبان کی دوسرے درجے کی قیادت کابل پہنچ چکی ہے مگر ابھی تک سپریم قیادت روپوش ہے۔ جس میں طالبان سربراہ ملا ہبت اللہ اخوند اور طالبان کے عسکری وند کے کمانڈر اور ملا عمر کے بیٹے ملا یعقوب بھی شامل ہیں یہ لوگ پبلک میں نہیں آتے اور نہ انہیں کسی نے آج تک دیکھا ہے۔ سابقہ امیر ملا اختر منصور کی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد طالبان نے فیصلہ کیا تھا کہ ان کی اعلیٰ قیادت پس پردہ رہے گی۔ مگر اب دور بدل چکا ہے طالبان کو اس پر نظر ثانی کرنا ہو گی کیونکہ اب وہ ایک سیاسی حکومت کے وارث ہیں لیکن اس میں شاید ابھی کچھ وقت لگے گا جب تک امریکہ اور طالبان کے آپس کے تعلقات کلیئر نہیں ہو جاتے۔
اسی اثنا میں پاکستان کے انٹیلی جنس چیف میجر جنرل فیض حمید نے کابل کااچانک دورہ کیا۔ اس دورے کی اہمیت اس لحاظ سے زیادہ ہے کہ یہ دورہ دنیا کو بتانے کے لیے کیا گیا ہے کہ افغانستان میں استحکام پاکستان کے لیے اہم ہے۔ ایک وقت تھا کہ انڈین نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اجیت دوول بڑے فخر سے اسی کابل پیلس میں اشرف غنی سے ملاقات کی تصویر چھپوا کر پاکستان کے سینے پر مونگ دلتے نظر آتے تھے مگر وقت تبدیل ہو گیا ہے۔ انڈیا کی تین ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری انڈیا کے تمام خوابوں سمیت ڈوب چکی ہے۔ اس وقت دنیا کے بڑے بڑے capitlals جس میں بیجنگ ، واشنگٹن، لندن، دہلی ہر جگہ اس تصویر پر خفیہ ردعمل جاری ہے۔