اگرچہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ آخر کار ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ایک خاتون نائب صدر کو فرائض سنبھالے آٹھ ماہ ہو چکے ہیں لیکن اسے ایک بے مثال کامیابی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جیسا کہ آثار قدیمہ کے کچھ حالیہ مطالعات سے پتا چلتا ہے، ہزاروں سال سے خواتین رہنما، جنگجو اور شکاری رہی ہیں۔ یہ نئی تحقیق قدیم تاریخ میں صنف کے قدرتی نام نہاد کردار کے بارے میں دیرینہ عقائد کو چیلنج کر رہی ہے اور دعوت دے رہی ہے کہ ہم اسے نئے سرے سے زیر بحث لائیں کہ آج ہم خواتین کے کام کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔
گزشتہ ماہ ماہر بشریات اور دوسرے محققین کے ایک گروپ نے اینڈیس میں دفن 9000 سال پرانی ایک بڑے شکاری کی باقیات کے بارے میں علمی جریدے سائنس ایڈوانسس میں ایک مقالہ شائع کیا۔ اس دور کے دوسرے شکاریوں کی طرح، اس شخص کو ایک خصوصی ٹول کٹ کے ساتھ دفن کیا گیا جس میں شکار کا تعاقب کرنے، زمانہ قدیم کی ساختہ گولیاں، کھال اتارنے کے لئے کھرچنی اور چاقو کی طرح نظر آنے والا ایک آلہ شامل تھا۔ میت کے بارے میں خاص طور پر کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی، البتہ بالغ مرد شکاری کی نسبت ٹانگوں کی ہڈیاں نسبتاً پتلی تھیں۔ لیکن جب سائنس دانوں نے دانتوں کے تامچینی کا جدید طریقہ استعمال کرتے ہوئے فرانزک تجزیہ کیا تا کہ معلوم ہو کہ ڈھانچہ مرد کا ہے یا عورت کا تو شکاری لڑکی نکلی۔
یہ معلومات سامنے آنے کے بعد، محققین نے امریکہ میں تقریباً اسی دور کی 107 دیگر قبروں سے باقیات کا دوبارہ جائزہ لیا۔ انہیں یہ جان کر حیرت ہوئی کہ شکار کے آلات والی 26 قبروں میں سے 10 خواتین کی ہیں۔ یونیورسٹی آف اوکلاہوما، نارمن کے ماہر آثار قدیمہ بونی پٹ بلڈو نے سائنس میگزین کو بتایا، ان نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’’خواتین ہمیشہ سے شکار کرنے کے قابل رہی ہیں اور حقیقت میں ان کا شکار کیا گیا ہے۔‘‘ نئے اعداد و شمار نے آثار قدیمہ کے میدان میں ایک مسلمہ اصول پر سوال اٹھائے ہیں۔ انسان کو ’’شکاری‘‘ کا لقب دیا جاتا ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ قدیم معاشروں سے مرد اور خواتین کے کردار کو سختی سے طے کر دیا گیا تھا: مرد شکار کرتے تھے اور خواتین جمع کرتی تھیں۔ اب یہ نظریہ ختم ہو سکتا ہے۔
اینڈینز سے متعلق تحقیق کے نتائج قابل ذکر ہیں، لیکن یہ آثار قدیمہ کے پرانے شواہد کا جدید سائنسی تکنیکوں کے استعمال کے ذریعے دوبارہ جائزہ لینے سے ملنے والی پہلی خاتون شکاری یا جنگجو نہیں تھی اور نہ ہی اس قسم کی دریافت ایک گروہ یا دنیا کے ایک حصے تک ہی محدود تھی۔
تین سال پہلے، سائنس دانوں نے 19 ویں صدی کے آخر میں سویڈن میں آثار قدیمہ کے ماہر ہجالمر سٹالپ کی طرف سے کھدائی کر کے نکالی گئی 10 ویں صدی کے بحری ڈاکو کی باقیات کا دوبارہ جائزہ لیا۔ یہ ڈھانچہ ایک پہاڑی کی چوٹی پر بڑے پُر وقار اور شاندار طریقے سے دفن کیا گیا تھا، قبر میں ایک تلوار، دو ڈھالیں، تیر اور دو گھوڑے بھی تھے۔ اس کھدائی کو کئی دہائیاں گزرنے تک آثار قدیمہ کے ماہرین کا خیال تھا کہ یہ ڈھانچہ کسی آدمی کا ہے۔ جب 1970 کی دہائی میں محققین نے ڈھانچے کی دوبارہ تشخیص کی تو انہیں شبہ ہونے لگا کہ بحری قذاق در حقیقت ایک عورت ہے۔ لیکن یہ عقدہ 2017 میں کھلا جب سویڈن کے آثار قدیمہ اور جینیاتی ماہرین کے ایک گروہ نے باقیات سے ڈی این اے نکالا تو جنگجو کی جنس عورت ثابت ہوئی۔ اس کھوج سے تنازع پیدا ہوا کہ آیا یہ ڈھانچہ واقعتاً ایک جنگجو کا تھا، سکالرز اور پنڈتوں نے اس پر احتجاج کیا اور اس کو انہوں نے تاریخ میں ترمیم قرار دیا۔ اگرچہ سائنس کے مطابق اس کی جنس غیر متنازع طور پر عورت تھی (ڈھانچے کی ہڈیوں میں دو ایکس کروموسوم تھے)، اس تنقید نے سویڈش محققین کو مجبور کیا کہ شواہد کا دوبارہ جائزہ لیا جائے اور 2019 میں باریک بینی سے دوسرا تجزیہ کیا گیا۔ اس کا حتمی نتیجہ یہی تھا کہ ڈھانچہ درحقیقت ایک عورت کا تھا جو جنگجو تھی۔ نقادوں نے نئے اور منصفانہ نکات اٹھائے ہیں۔ آثار قدیمہ میں، جیسا کہ محققین نے اعتراف کیا، ہم ہمیشہ نہیں جان سکتے کہ ایک گروہ نے کسی کو کسی خاص چیز کے ساتھ کیوں دفن کیا۔ اور ایک خاتون کے جنگجو ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ بہت سی خواتین رہنما تھیں، بالکل اسی طرح جیسے ملکہ الزبتھ اول کا دور حکومت کسی بھی بڑی نسائی تحریک کا حصہ نہیں تھا۔
امریکہ کی ابتدائی ثقافتوں کے نئے امتحانات میں بھی انسان کے شکاری ہونے کو نئے چیلنجز کا سامنا ہوا ہے۔ 1960 کی دہائی میں کاہوکیہ کے قدیم شہر، جو اب جنوب مغربی الینوائے میں ہے، میں ایک ہزار سے لے کر 1200 سال قدیم قبرستان کی کھدائی کے دوران انکشاف ہوا کہ دو مرکزی قبریں جو دیگر قبروں سے بلند اور ان کی گھیرے میں ہیں ان کے مقبرے شیل کے موتیوں کی مالا، گولے اور دیگر لگژری اشیاء سے بھرے ہوئے تھے۔ اس وقت، ماہرین آثار قدیمہ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ دونوں قبریں سرداروں کی ہیں جبکہ اطراف میں ان کے سپاہی مدفون ہیں۔
لیکن 2016 میں آثار قدیمہ کے ماہرین نے مرکزی قبروں کا نئے سرے سے معائنہ کیا۔ معلوم ہوا کہ دونوں مرکزی شخصیات میں سے ایک مرد اور ایک خاتون تھیں۔ ان کے چاروں طرف موجود قبروں میں بھی دوسرے مرد اور مادہ جوڑے تھے۔ تھامس ایمرسن، جنہوں نے الینوائے یونیورسٹی کے ساتھیوں اور دوسرے اداروں کے سائنسدانوں کے ساتھ ایلی نوائے اسٹیٹ کے آثار قدیمہ کا مطالعہ کیا، نے بیان کیا ہے کہ کاہوکیہ کی دریافت نے مرد اور خواتین کی شرافت کے وجود کو ظاہر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس ایسا کوئی نظام نہیں ہے جس میں مرد غالب شخصیات ہوں اور خواتین کا کردار بہت محدود ہو۔
آرمچیر ہسٹری بوفس ایمیزونز اور والکیریز جیسی خواتین جنگجوؤں کے زیر اثر افسانوی معاشروں کے بارے میں جاننا پسند کرتے ہیں۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ یہ تحقیقات کسی مادرسری نظام کی توثیق نہیں کرتے نہ ہی وہ ان معاشروں کے نظریہ کو کوئی سند دیتے ہیں جن کے مطابق مرد مکمل طور پر غلبہ حاصل تھا۔ وہ جو بیان کرتے ہیں وہ اس سب کی نسبت بہت زیادہ منطقی اور قابل ذکر ہے: کچھ خواتین جنگجو اور رہنما تھیں، بہت سی نہیں تھیں۔ عدم مساوات تھی لیکن یہ مطلق نہیں تھی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت ساری تبدیلیاں بھی ہوئیں۔ اس ساری تفصیل کا حاصل یہی ہے کہ جب بات خواتین کو استحکام بخشنے، با اختیار بنانے اور صنفی کرداروں کی ہو تو، ماضی کی طرح ان کا حال بھی مبہم ہی ہے۔
(بشکریہ: دی نیویارک ٹائمز)