واشنگٹن:امریکی اخبار نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ امریکی انتظامیہ داعش کی سرکوبی کے بعد عراق میں سرگرم ایرانی شیعہ ملیشیا اور حزب اللہ کے خلاف جنگ کی تیاری کررہی ہے۔امریکا کی جانب سے یہ موقف ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب شیعہ ملیشیا حزب اللہ کے بعض رہ نماوں نے کہا تھا کہ وہ داعش کے کچلے جانے کے بعد بھی عراق میں موجود رہیں گے۔
میڈیارپورٹس کے مطابق عراق میں داعش کے خلاف لڑائی اپنے آخری مراحل میں ہے اور داعش کو اپنے آخری ٹھکانے بھی چھوڑنے پڑ رہے ہیں۔ ایسے وقت میں امریکا کی پیش آئند معرکے پر نظریں مرکوز ہیں۔
زمینی حقائق اس بات کا اشارہ دے رہے ہیں کہ اب امریکی فوج کو عراق کی سرزمین پر ایرانی ملیشیاو¿ں کے ساتھ نبرد آزما ہونا پڑے گا۔ امریکا داعش کے خلاف جنگ ختم کرنے کے بعد فوری طور پر عراقی حزب اللہ اور دیگر ایران نواز ملیشیاو¿ں کے خلاف کارروائی کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔
عراقی حزب اللہ ملک میں امریکی فوج کے وجود کو برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ تنظیم کے قایدین کی طرف سے آنے والے بیانات میں تلعفر میں داعش کے خلاف آپریشن میں امریکی فوج کے کردار کو مسترد کردیا گیا تھا۔امریکیوں کو اس امر کا بہ خوبی ادراک ہے کہ عراقی حزب اللہ کے لیڈروں کے بیانات ایرانی خواہشات کے عکاس ہیں جو عراق میں اپنی حامی عسکری تنظیموں کی مدد کرکے تہران، لبنان، عراق اور شام تک بری گذرگاہ بنانا چاہتا ہے۔
امریکا ایران کے اس منصوبے کو مسترد کرنے کے ساتھ عراقی حزب اللہ کو ملک کی خطرناک تنظیم قرار دیتے ہوئے بلیک لسٹ کرچکا ہے۔ عراق میں حزب اللہ ملیشیا کی بنیادی سنہ 2007ءمیں ایرانی موبلائیزیشن فورس ’فیلق القدس‘ نے رکھی۔ یہ تنظیم اپنے قیام کے بعد عراق میں 500 امریکی فوجیوں کو ہلاک کرنے کی ذمہ داری قبول کر چکی ہے۔