اسلام آباد : چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کے اختیارات سے متعلق ایکٹ کے خلاف درخواستوں کی سماعت جاری ہے۔مقدمے کی فل کورٹ سماعت کر رہا ہے۔
سماعت میں درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ آئین کا آرٹیکل ایک سو اکانوے سپریم کورٹ کو مکمل اختیار دیتا ہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا آئین کا ایک آرٹیکل چیف جسٹس کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ جو مرضی چاہے کر لے۔
انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل ایک سو چوراسی تین کے تحت اگر چیف جسٹس از خود نوٹس کا غلط استعمال کرتا ہے تو کیا وہی کام پارلیمنٹ بھی کرے؟ ہزاروں معاملات ایسے ہیں جن میں غلط طور پر نوٹس لیے گئے۔
چیف جسٹس نے عابد زبیری سے استفسار کیا کہ انہیں ایک سو چوراسی تین کے تحت اپیل کا حق دیا گیا ہے اس سے انہیں کیا مسئلہ ہے؟
چیف جسٹس نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ کہیں وہ پی ٹی آئی کی وکالت تو نہیں کر رہے جس پر عابد زبیری کا کہنا تھا کہ وہ سپریم کورٹ بار کی طرف سے پیش ہوئے ہیں۔
چیف جسٹس نے درخواست گزار کے وکیل سے کہا کہ وہ یہ ابھی تک نہیں بتا سکے کہ ازخود نوٹس کا استعمال غلط ہو رہا ہے یا درست جس پر درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ کچھ معاملات میں یہ اختیارات درست استعمال ہوئے اور بعض اوقات غلط ثابت ہوئے ہیں۔
اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ اس قانون سازی سے کون سا بنیادی حق متاثر ہوا ہے جس پر درخواست گزار کے وکیل عدالت کو مطمئن نہ کر سکے۔
عدالت کی طرف سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں عابد زبیری کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل ایک سو چوراسی تین کے تحت دیے گئے فیصلوں پر نظر ثانی کا اختیار ہونا چاہیے اور یہ اختیار آئین میں پہلے ہی دیا گیا ہے۔
بینچ میں موجود جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہاگر پارلیمنٹ کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ سپریم کورٹ کے معاملات میں مداخلت کا اختیار رکھے تو وہ اس بارے میں قانون سازی کرے گی جو غلط بھی ہوسکتی ہے اور درست بھی۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اگر کوئی غلطی ہوتی ہے تو درست کرنے کی پہلی ذمہ داری سپریم کورٹ اور پھر پارلیمنٹ کی ہو گی۔