آج دنیا کا سب سے بڑا بحران انسان کی بے جہتی، عدم شناخت، بے مقصد، بے ہدف زندگی کا بحران ہے۔ ایک جیتے جاگتے دھڑکتے دل، احساسات وجذبات کی مکمل دنیا اس کے اندر آباد ہے۔ نہ صرف دماغ سوچنے سمجھنے پلان کرنے کی صلاحیت سے آراستہ ہے بلکہ دل بھی انہی 40 ہزار خلیوں (Neurons ) سے مسلح ہے جن سے دماغ سجا ہے! یہ جو اللہ نے فرمایا تھا کہ ’ان کے دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے سمجھتے نہیں‘۔ یہ صرف ادبی استعارہ نہیں۔ دل دماغ کے مابین صلاح مشورہ ہوتا ہے۔ فکر وتدبر کے ہر کاروں کی آمد ورفت ہوتی ہے فیصلہ کرتے ہوئے۔ یہ جو اللہ نے تنبیہ فرمائی ہے: ’یقینا آنکھ، کان اور دل سب ہی کی بازپرس ہونی ہے۔‘ (بنی اسرائیل۔ 36) تو یہ دل کی باز پرس ایک خون پمپ کرنے کی مشین بارے تذکرہ نہیں کہ کتنا خون پمپ کیا! یہ رد وقبول کی صلاحیت، تفقہ تدبر والے دل کا تذکرہ ہے۔ جنت کا وعدہ قلبِ سلیم سے ہے۔ یہ مضبوط مادی پمپ سے نہیں، پاکیزہ، ہدایت یافتہ شفاف، نفسانی بیماریوں سے پاک سلامت دل ہے۔ قرآن (شفاء لما فی الصدور: دل کے امراض کی شفا) سے سیراب ہونے والا دل ہے۔ یوں بھی انسان کے مادی وجود کی پیچیدگیاں، نظام، مسلمانوں نے اسپین پر حکمرانی کے دوران دریافت کیے تھے۔ دورانِ خون کا نظام بھی مسلم سائنس دان ابنِ نفیس نے ولیم ہاروے سے 300 سال پہلے دریافت کرلیا تھا، تاہم مشہوری کے بھونپو جب گورے کے ہاتھ رہے تو مشہور ولیم ہاروے ہی ہوا، ہم زوال میں لڑھک گئے۔
اسی حقیقی دل کی کارکردگی پر اقبال نے متوجہ کیا تھا: نگاہ پاک ہے تو دل بھی پاک ہے تیرا، کہ حق نے دل کو کیا ہے نگاہ کے تابع۔ دل کو جانے والے انہی راستوں پر پہرہ بٹھانے کی طرف اللہ نے چار مرتبہ متوجہ کیا: اس (مٹی کے پتلے، ظاہری وجود) کے اندر (اپنی طرف سے) روح پھونکی اور تم کو کان دیے، آنکھیں دیں اور دل دیے۔ تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو۔ (السجدہ۔ 9)
مرکزِ احساسات دل ہے۔ ایمان دل سے تصدیق پاتا ہے۔ عقلی دلائل دماغی کمپیوٹر میں غور وفکرِ مزید سے اسے قوی کرتے ہیں۔ پھر جبینِ نیاز لبالب سجدوں سے بھر کر بے قرار ہوکر پکارتی ہے: کبھی اے حقیقتِ منتظر نظر آ لباس مجاز میں، کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں! یہ پیکرِ خاکی کے اندر رکھا انمول جوہر (زندگی) جسے روح کہتے ہیں، یہی اصل شخصیت کا مرکز ہے۔ دل، جسمانی اور روحانی حیات کا منبع ہے۔
دلِ مردہ دل نہیں ہے اسے زندہ کر دوبارہ
کہ یہی ہے امتوں کے مرضِ کہن کا چارہ
یہ تمہید طولانی پاکستان پر دل کی موت کے وائرس کے حملے کے ضمن میں ہے۔ ٹرانس جینڈر طاعون کی گلٹی کی طرح علامت ہے روح کے مرکز دل پر بدترین حملے کی۔ کافر دنیا، روح کے وجود کا، خالق کا انکار کرکے دیوانگی کے صحراؤں میں سرابوں کا تعاقب کر رہی ہے۔ العطش، العطش، پیاس، پیاس پکارتی روحانی اعتبار سے بھوکی پیاسی پھر رہی ہے۔ اسلام کے چشمۂ صافی کے دہانے پر آج کے مسلمان نے تیغا لگا رکھا ہے۔ نہ وہ خود فیض یاب ہو رہا ہے نہ کافر کو پہنچنے دے رہا ہے۔ حتیٰ کہ یہ خود اس کی انگلی تھامے بحرِ مردار میں زندگی تلاش کرنے غوطہ لگانے چلا تھا کہ قوم جاگ اٹھی۔ تعمیرِ شخصیت میں احساسات کا مرکزی کردار ہے۔ مغرب نے بے راہ ہوکر احساسات میں گندگی، سڑاند بھر دی ہے۔ گزشتہ 20 سال میں عالمی سطح کے یہ شرم سے سر جھکا دینے والے سارے مظاہر دیکھیے اور پھر فیصلہ کیجیے۔ مغرب میں برہنگی کو رواج دینے کے لیے صرف فیشن
شوز اور شوبز تک بات محدود نہیں۔ ساحلِ سمندر کے علاوہ ریسٹورنٹ، فضائی سفر بھی ہوئے جس میں برہنگی کو بطور شرط رکھا گیا۔ ذوق کی تباہی اتنی کہ بیت الخلاء کے ماڈل پر ریسٹورنٹ بنائے جہاں فلش کی سیٹ نما گاہکوں کے بیٹھ کر کھانے کی کرسی کے طور پر استعمال ہوئی۔ خوراکیں ظاہری شباہت میں بول وبراز صورت تھیں۔ غرض پورا منظر بیت الخلائی تھا۔ لٹریچر میں اعلیٰ ترین مقام اور ادبی ایوارڈ سلمان رشدی کی یادہ گوئی، ’شیطانی آیات‘ کو دیا گیا۔ ’ہیری پوٹر‘ نامی مقبول ترین سیریز شیاطین کی زیر زمین، پس پردہ دنیا پر مبنی تھی جسے خریدنے کو نوجوانوں کے ٹھٹھ لگتے رہے۔ یہ پڑھ کر یورپ میں شیاطین کی پوجا کی ’عبادت گاہیں‘ زور پکڑ گئیں۔ جو کسر تھی، تابوت کا آخری کیل ’ٹرانس جینڈر‘ کے پردے میں سدومیات کے سارے ابواب کھول کر معاشروں کو حیا باختگی اور نسلی، قومی خودکشی کی راہ پر ڈالنا تھا جو اس وقت پورے مغرب میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکا۔
تیرے محیط میں کہیں جوہرِ زندگی نہیں
ڈھونڈ چکا میں موج موج، دیکھ چکا صدف صدف
کیوبا جیسے (کیتھولک عیسائی) ملک میں ریفرنڈم میں ہم جنس شادی کا بل پاس ہونا تھا کہ عذاب کا کوڑا فوراً برس پڑا۔ ایان سمندری طوفان اٹھا اور پورا کیوبا تاریکی میں ڈوب گیا۔ ہیبت ناک غراتے چنگھاڑتے طوفانی تھپیڑوں میں مرکزی بجلی کا پلانٹ اندھا ہوگیا۔ یہی اندھا پن جو قومِ لوطؑ نے اخلاقیات سے منہ موڑکر اختیار کیا تو اللہ نے ان کی آنکھوں کا نور سلب کرلیا تھا۔ (القمر۔27) یہ طوفان آگے بڑھ کر امریکا میں فلوریڈا پر ٹوٹ پڑا۔ 500 سال کا ریکارڈ توڑتا یہ طوفان تہس نہس کر گیا، روندی ہوئی باڑ کی طرح بستیوں کے بھس ہو جانے کے مناظر۔ طوفانی ہوا کے تھپیڑے، سیلابوں میں غرقابی۔ بجلی سے محرومی پر تاریکی کا راج۔ تفریحی لگژری کشتیاں، جہاز، گاڑیاں ٹوٹے ہوئے کھلونوں کی طرح پٹخ پٹخ کر بکھری پڑی تھیں۔ گلیوں سڑکوں پر اکھڑے درخت، ٹوٹی بجلی کی تاروں نے خوفناک رکاوٹیں کھڑی کر رکھی تھیں۔ پل ٹوٹے، سڑکیں بہہ گئیں۔ انتظامیہ، میئرز تباہی کو نام دینے سے قاصر ہیں۔ سالہا سال میں بحالی ہوگی۔ یہ بھی کہا کہ بائبل میں مذکور طوفانوں والا حشر بپا تھا۔ وہ جزیرہ جو سیاحوں کی جنت تھا جگمگاتے ساحلوں سرسبز وشاداب مناظر کی جگہ خوفناک تباہی چہار سو تھی۔ فورٹ مائرز کا ساحل جہاں شاندار ہوٹلوں، شراب خانوں، ریسٹورانٹوں کے قطار اندر قطار سلسلے تھے اب کچرا کوڑا ہوا پڑا تھا۔ گھروں میں سیاہ اور بھورے مائع نے فرش قالین لیپ کردیے جہاں لہروں کی صورت پانی گھسا چلا آیا تھا۔ بعض علاقے 80 فیصد تباہ ہوئے۔ سرخ چیونٹیوں، سانپوں اور بعض جگہ اب مگرمچھوں کا بھی سامنا ہے۔ شارک مچھلیاں بھی چلی آئیں۔
دنیاوی عیش وطرب، اخلاقی گراوٹ میں ساری حدیں توڑ ڈالنے والی یہ آبادیاں ہمارے ہاں لوگوں کی آنکھوں میں حسین خواب بن کر بستی ہیں۔ آپ ان کے شہروں بارے رہنمائی مانگیں تو LBGT والے علاقوں کی طویل فہرست بھی ملے گی جہاں ایسے بدقماشوں کا راج ہے۔ اخلاقی گراوٹ کی یہ انتہائیں اور اس پر اللہ کے غضب کے تھپیڑے، پناہ بخدا۔ اس کے ذمہ دار ہم مسلمان ہیں۔ دنیا میں وفا اور حیا کے بحران کا تریاق ہمارے پاس تھا۔ روحِ انسانی خالق تک رسائی کی تڑپ میں پیاسی ماری ماری پھرتی ہے۔ نہ ملنے پر شدید ردعمل کے یہ سارے مظاہر ہیں۔ شراب۔ منشیات۔ برہنگی۔ LGBT ۔ اسی اندر کی چیخ وپکار کو دبانے کے لیے ہے۔ اس دلدل سے نکلنے کی رہنمائی روح کی سیرابی کا سامان ہم چھپائے بیٹھے، خود بڑی محنت سے بھٹکنے بھٹکانے کے پروگراموں میں مگن ہیں۔ ترقی اور دنیا کے ساتھ قدم ملاکر (بحر مردار پہنچنے تک کو راضی!) چلنے کے جھانسوں میں۔
اللہ، خالق سے وفا نہ ہوتو ہر رشتے سے وفا اٹھ جاتی ہے۔ والدین، اساتذہ، زوجین، اولاد۔ پوری دنیا اسے بھگت رہی ہے۔ روحانی رہبری کا کامل، اکمل، یقینی مستند ترین نمونۂ عمل، اسوۂ ہمارے پاس ہے، زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کرتے ہوئے۔ دنیا کی اکھڑتی روحانی سانسوں کا وینٹی لیٹر، روحانی نفسیاتی معاشرتی بے قراریوں، بیماریوں کا شافی علاج۔ جلوت وخلوت کا لائق تقلید نمونۂ عمل متوازن، فرد سے حکومت، بین الاقوامیت تک دنیا کی ہر قوم کے لیے یکساں رہنمائی لیے۔ ’اور (اے نبیؐ) ہم نے تم کو تمام ہی انسانوں کے لیے بشیر ونذیر بناکر بھیجا ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں۔‘ (سبا۔ 28) دنیا کے جاننے کی راہ کی رکاوٹ ہماری بے عملی و بدعملی ہے۔
صد کتاب و صد ورق در نارکن
روئے دل را جانب دلدار کن
دنیا کی ساری کالی کتابیں ہمیں اشرف المخلوقات بن کر جینا نہیں سکھا رہیں، آگ میں جھونکی جائیں۔ ان سے اب انجامِ کار نور مقدم، ظاہر جعفر اور سارہ انعام، شاہنواز کہانیاں جنم لے رہی ہیں۔ مآل ملالہ یوسف زئی جیسے کردار ہیں۔ دل کا رخ رب تعالیٰ کی طرف پھیرنے پھرانے کی مہم درکار ہے اور یہی ہمارا مقصد وجود ہے۔ بذریعہ قرآن اور نبیٔ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم!
مرے دل میں مکیں ہو لامکانی
خبر دے مجھ کو خود اپنی خبر دے