اب یہاں کوئی نہیں آئے گا!

Taufeeq Butt, Pakistan, Naibaat newspaper,e-paper, Lahore

قہقہوں کی ایک اور پٹاری اللہ کو پیاری ہو گئی۔ عمر شریف کی موت پر ہمارے  ایک منفرد کالم نگار یاسر پیرزادہ نے بہت خوبصورت کالم لکھا ہے۔ ایسے موضوعات پر لکھنے سے وہ عموماً گریز فرماتے ہیں۔ انہوں نے عمر شریف کی موت کو ایک ”قتل“ قرار دیا۔ انہوں نے بالکل ٹھیک لکھا ”حکمران عمر شریف کے لئے کچھ کر سکتے ہیں تو ان کے قاتلوں کو سزا دیں“۔…… عمر شریف کے قاتل وہ ہیں جنہوں نے ان کی بیٹی کے گردوں کے آپریشن میں بے شمار غفلتوں کا مظاہرہ کر کے اسے قبر میں اتار دیا۔ عمر شریف بھی اصل میں اسی روز انتقال فرما گئے تھے۔ انہیں دفنایا دیر سے گیا۔ ایک ”زندہ لاش“ تھی جسے ایک ”ڈیڈ ہاؤس“ میں رکھا گیا تھا۔ پاکستان اب ایک ”ڈیڈ ہاؤس“ ہی ہے۔ جہاں احساس سلامت نہ ہو وہاں زندگی سلامت کیسے ہو سکتی ہے؟…… ہر باپ کو اپنی بیٹی سے بڑی محبت ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ ان میں وہ باپ بھی شامل ہوتے ہیں جو بیٹی کی پیدائش پر افسردہ ہو جاتے ہیں۔ مجھے والدین کے بعد سب سے پیارا رشتہ بیٹی کا لگتا ہے۔ میرے بیٹے نے مجھ سے کوئی بات منوانی ہو وہ اپنی ماں سے نہیں اپنی بہن سے کہتا ہے۔ کیونکہ اسے پتہ ہے میں بیٹی کی بات کسی صورت میں نہیں ٹال سکتا۔ شادی کے بعد ہمارے ہاں لوگوں کی عموماً یہ خواہش ہوتی ہے ان کے ہاں بیٹا پیدا ہو۔ میں حلفاً یہ کہہ سکتا ہوں شادی کے بعد پہلے بچے کے طور پر میں نے بیٹی کی خواہش کی تھی۔ اللہ نے اپنی خاص رحمت سے میری یہ خواہش پوری کر دی…… میں یہ نہیں کہتا بیٹے اپنے باپ سے محبت نہیں کرتے۔ ہمارے ہاں مگر عمومی تاثر یہ ہے بیٹوں کے مقابلے میں بیٹیاں اپنے باپ سے زیادہ محبت کرتی ہیں، ان کا زیادہ خیال رکھتی ہیں۔ شاید اس لئے کہا گیا بیٹے اپنے والدین کی جائیداد اور بیٹیاں جنازوں کی وارث ہوتی ہیں۔ اس حوالے سے ایک واقعہ بھی ہے ایک شخص کا انتقال ہوا۔ اس کے جنازے پر ایک شخص نے تقاضا کر دیا ”مرحوم اس کا مقروض تھا سو جب تک اس کے لواحقین اس کا قرض ادا نہیں کریں گے وہ مرحوم کی تدفین نہیں ہونے دے گا“…… مرحوم کے صاحبزادگان اس شخص سے لڑنے جھگڑنے لگے کہ تمہارے پاس کیا ثبوت ہے ہمارے باپ نے تمہارا قرض دینا ہے؟۔ تنازعہ طویل ہو گیا تو اچانک ایک خاتون وہاں آئی اس نے اس شخص سے کہا ”میرے باپ نے آپ کا جتنا قرض دینا ہے وہ میں ابھی ادا کرنے کے لئے تیار ہوں۔ آپ میرے باپ کی تدفین ہونے دیں“…… اس شخص نے اس عورت سے پوچھا۔آپ کون ہیں؟۔ وہ بولی ”میں مرحوم کی بیٹی ہوں“…… اس پر اس شخص کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس نے کہا بیٹی اصل واقعہ یہ ہے آپ کا باپ میرا مقروض نہیں تھا۔ میں آپ کے باپ کا مقروض ہوں۔ دو برس قبل میں نے آپ کے باپ سے پانچ لاکھ روپے ادھار لئے تھے۔ میں نے آج یہ رقم واپس کرنی تھی۔ پھر اس نے پانچ لاکھ روپے جیب سے نکال کر اس کے سپرد کر دیئے۔ باپ سے محبت میں بیٹے ہار گئے بیٹی جیت گئی اور اس کا صلہ بھی اسے فوراً مل گیا۔…… عمر شریف کے ذکر میں بیٹی کا ذکر اس لئے ذرا زیادہ ہو گیا کہ کچھ ڈاکٹروں بلکہ ڈاکوؤں کی غفلت سے ان کی بیٹی کا انتقال ہوا اس کے بعد وہ خود بھی بیمار رہنے لگے تھے۔ ان کی وفات کے بعد بیرون ملک سے میرے ایک عزیز نے فون پر مجھ سے پوچھا ”انہیں کیا بیماری تھی؟۔……“ میں نے عرض کیا ”انہیں اپنی بیٹی کی جدائی کی بیماری تھی“۔ اسی بیماری نے انہیں موت کے منہ میں دھکیل دیا۔ اور ہم اپنے ایسے فنکار سے محروم ہو گئے جس کے بعد ہم تصور بھی نہیں کر سکتے ان جیسا اور کوئی اس دھرتی میں اب پیدا ہو گا۔…… یوں محسوس ہوتا ہے اللہ واقعی ہم سے ناراض ہے۔ اس کی ناراضگی کی ایک نشانی یہ ہے اس دھرتی نے ہر شعبے میں بڑے لوگوں کو جنم دینا بند کر دیا ہے۔ اس حوالے سے دھرتی مکمل طور پر بانجھ ہو گئی ہے۔ اب تو بس مجھ جیسے ”بونے“ ہی پیدا ہو رہے ہیں۔ ”کچرے میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ کیا اب ہم یہ تصور کر سکتے ہیں مستقبل اگر سلامت رہا اس میں کوئی نورجہاں، کوئی نصرت فتح علی خان، مہدی حسن پیدا ہوں گے؟ کوئی احمد ندیم قاسمی، فراز، منیر نیازی، پروین شاکر، قدرت اللہ شہاب، مختار مسعود، بانو قدسیہ  پیدا ہوں گی؟…… شعریاد آیا ”حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا…… لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر…… ہمارے ساتھ ”حادثہ“ یہ ہوااپنی ہی بے برکتیوں اور بداعمالیوں کے باعث ہم اس یقین میں مبتلا ہیں ایسے بڑے لوگ اب یہاں پیدا نہیں ہوں گے۔ نورجہاں نے شاید اسی وقت کے لئے گایا تھا ”اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا“…… اور حادثے سے بڑھ کر سانحہ یہ ہو رہا ہے چند بڑے لوگ ہمارے پاس جو رہ گئے تھے موت کی صورت میں وہ بھی بچھڑتے جا رہے ہیں۔…… عمر شریف بہت عرصے تک مجھے اچھے نہیں لگتے رہے۔ واقعہ یہ ہے مرحوم دلدار پرویز بھٹی کی وفات کے بعد ان کے لواحقین کی مالی مدد کے لئے میں نے اپنے ادارے ”ہم سخن ساتھی“ کی جانب سے الحمراء ہال ون میں بہت بڑے دلدار شو کااہتمام کیا۔ موجودہ وزیر اعظم عمران خان بھی اس میں تشریف لائے۔ نصرت فتح علی خان، عابدہ پروین، غلام علی، عطاء اللہ عیٰسی خیلوی سمیت بے شمار بڑے فنکاروں سے ہم نے گزارش کی وہ بغیر کسی معاوضے کے اس میں شریک ہوں ہم چاہتے تھے اس شو کی کمپیئرنگ عمر شریف کریں۔ ہم نے ان کے ایک قریبی دوست کے ذریعے ان سے گزارش کی انہوں نے فرمایا ایک دو دنوں میں عمر شریف سے بات کر کے آپ کو بتاؤں گا۔ دو روز بعد ان کا مجھے فون آیا فرمانے لگے ”میں نے عمر شریف سے بات کی ہے کہتے ہیں میں کسی شو میں جانے کے ایک لاکھ روپے لیتا ہوں (یہ 1994ء کی بات ہے جب ایک لاکھ روپے بڑی رقم ہوتی تھی) مگر یہ شو چونکہ دلدار بھٹی کے لئے ہو رہا ہے تو میں ایک لاکھ کے بجائے پچاس ہزار لے لوں گا۔ ساتھ ہوائی جہاز فسٹ کلاس کی ٹکٹ کا اہتمام بھی کرنا ہو گا…… مجھے یہ سن کر بڑا دکھ ہوا۔ ہمیں اس وقت ایک ایک پیسے کی اشد ضرورت تھی۔ ہم چاہتے تھے زیادہ سے زیادہ رقم اکٹھی کر کے بیگم دلدار بھٹی کو دیں۔ سو ہم نے عمر شریف کو بلانے کا ارادہ ترک کر دیا۔…… بعد میں ایک تقریب میں وہ مجھ سے ملے میں نے اس بات پر ان سے گلہ کیا انہوں نے فوراً قسم اٹھا لی کہ انہیں اس شو کے لئے کہا ہی نہیں گیا تھا۔ میں نے ان کی قسم پر یقین کر لیا اور اپنے دل میں ان کے لئے جو ناپسندیدگی تھی وہ ختم کر دی…… وہ ساری عمر قہقہے تقسیم کرتے رہے۔ قہقہے بھی جائیداد کی طرح ہوتے ہیں۔ یہ ”جائیداد“ پورے پاکستان پوری دنیا میں بانٹ کر وہ چلے گئے۔…… یہ ہنسانے والے بڑے ظالم ہوتے ہیں رلا کر چلے جاتے ہیں!!