انتخاب سے قبل ہونے والے تیسرے اور حتمی ٹی وی مباحثے کے بعد مبصرین 26ستمبر کوجرمنی میں ہونے والے عام چناؤ میں وزیرِ خزانہ اولاف شلزکی سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی کی جیت کا امکان ظاہرکرنے لگے تھے اِس ٹی وی مباحثے میں غربت کے مقابلے، ماحولیاتی تحفظ اور داخلی سکیورٹی کے معاملات پر زوردار بحث ہوئی موجودہ حکمران جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین کے امیدوار آرمین لاشیٹ نے گفتگو میں مذکورہ مسائل کے حوالے سے واضح روڈ میپ دینے کے بجائے دفاعی انداز اپنائے رکھا مگر حریف اولاف شلز نے تابڑ توڑ حملے کیے اور یہ باور کرانے میں کامیاب رہے کہ اینجلا مرکل کا احترام،سادگی اور خلوص اپنی جگہ، دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے جرمن قوم کو موجودہ پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے اور جارحانہ انداز اپنانے کی ضرورت ہے جس کے لیے سنجیدہ اور پُرعزم لیڈرشپ ضروری ہے مبصرین کو اسی مباحثے سے اندازہ لگانے میں آسانی ہوئی کہ پارلیمانی انتخابات میں موجودہ جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین پر سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کو برتری ملے گی البتہ جیت اور ہار میں زیادہ فرق نہیں ہوگا نتائج سے مبصرین کے اندازے درست ثابت ہوئے اب اینجلامرکل کی جگہ نئے چانسلرکاانتظارہے جس کے آنے سے موجودہ خاتون چانسلر کے سولہ سالہ اقتدار کا خاتمہ ہو جائے گا۔
چانسلر کے امیدوار اولاف شلزبے داغ شخصیت کے مالک نہیں بلکہ ملک میں اُن کے ناقدین کی کمی نہیں جس کی وجہ مالیاتی کئی الزامات
اوراِس حوالے سے تحقیقات ہیں جن کا سلسلہ انتخابی مُہم کے دوران بھی جاری رہا ایک موقع پر تو ایسا دکھائی دینے لگا تھا کہ چانسلر بننے کا خواب شایدہی پورا ہو اور شلز کا سیاسی اختتام بطور وزیرِ خزانہ ہی ہوجائے آغاز میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی اور اُس کے اتحادی بھی ہونے والی تحقیقات سے پریشان نظر آئے لیکن سیاستدان ہر وقت فائدے کی راہیں تلاش کرنے میں سرگرداں رہتے ہیں یہاں بھی ایسا ہی ہوا تحقیقات کے دوران قانون سازوں کی طرف سے آڑے ہاتھوں لینے کے باوجودشلز نے اعصاب مضبوط رکھے اور ناکامی پر منتج ہوتی بازی پلٹ کر سب کو حیران کر دیا انہوں نے جارحانہ انداز اپناتے ہوئے ویڈیو لنک کے ذریعے سوالات کے جوابات دینے کے بجائے غیر متوقع طور پردلائل دینے کے لیے پارلیمنٹ کی فنانس کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کا مشکل راستہ اختیار کیا جس سے انہیں یہ فائدہ ہوا کہ وہ تحقیقات کرنے والوں کوبڑی حد تک مطمئن کرنے میں کامیاب رہے حالانکہ اُن سے تابڑتوڑ سوال ہوئے تاکہ پریشان ہو کر کوئی ایسا نکتہ دے سکیں جس سے تحقیقاتی کمیٹی کو الزامات ثابت کرنے میں مدد ملے لیکن جواب دیتے ہوئے شلز بالکل پُرسکون رہے اور کوشش کی کہ تحقیقاتی کمیٹی سے اُلجھانہ جائے مباداکوئی ایسا کام ہو جس سے انتخابی مُہم متاثر ہواِس میں وہ بڑی حد تک کامیاب رہے اور تابڑتوڑ سوال کرنے والے قانون سازوں کو جلد ہی نازک حالات کی بنا پر پسپائی اختیار کرنا پڑی یہ ایسی جیت
تھی جو شلز کی گرویدہ حلقے میں قدرومنزلت بڑھانے کا باعث بنی اور ساٹھ ملین سے زائد حقِ رائے دہی رکھنے والے ملک کی عوام کی اکثریت کے دل میں اپنے حق میں ہمدردی کی لہر پیداکرنے میں کامیاب ہونے کے ساتھ میدان میں اُتری کل سینتالیس جماعتوں اورگروپوں کے بھنورسے اپنی جماعت کو پہلی پوزیشن دلانے میں کامیاب ٹھہرے۔
اینجلا مرکل کی کامیابیوں یا ناکامیوں کا جائزہ لیتے ہوئے یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ اُن کی سادگی نے جرمنوں میں انہیں احترام دلایاہے مگر درپیش چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے انہوں نے زیادہ تر دنیا کی مان کر ساتھ چلنے کی کوشش کی اور کم ہی مواقع پرالگ راہ اپنائی ہے حالانکہ نیٹو جیسے اتحادکے ممبرہونے کے باوجود ترکی اور فرانس نے جب چاہا الگ موقف اپنایا لیکن جرمنی جیسے بڑے ملک،جس کی معیشت بھی مضبوط ہے کی اینجلا نے وقت گزار پالیسی پر صاد کیے رکھا یہ انداز بھی مرکل کے احترام میں کمی نہ لا سکالیکن حکمران جماعت کرسچین ڈیموکریٹس سے وابستہ سیاستدانوں پر ماسک ڈیل سکینڈل میں ملوث ہونے متنازع ڈیل میں مالی فوائد کے الزام لگے یہ سکینڈل رائے عامہ بالخصوص نوجوانوں کے ذہن متاثر کرنے کا ایک سبب بنا پھر بھی اینجلا کی واجبی سی کار کردگی کے باوجود اُن کا احترام اُن کی جماعت کرسچن ڈیمو کریٹک یونین کو حالیہ چناؤ میں اچھے ووٹ دلانے کا باعث بنا مگراب جرمن احترام کے باوجود ایسی شخصیت کو آگے لانے کے متمنی ہیں جو جرمنوں کو ایک بار پھر عالمی سطح کا اہم کھلاڑی بنائے اور ہر وقت افہام و تفہیم کے بجائے طاقتور ملک کے طاقتور لیڈر کی طرح چلے یہ سوچ جرمنوں کے ذہنوں میں نمو پا رہی ہے اور افہام و تفہیم اور جارحانہ مزاج رکھنے والوں میں جرمن تقسیم ہو رہے ہیں۔
کیا نئے جرمن چانسلر کی آمد کے حوالے سے کوئی صد فی صد درست پشین گوئی کی جا سکتی ہے؟ میرے خیال میں ایسی کوئی بات کرنایا اندازہ لگانا ابھی قبل از وقت ہو گا وجہ یہ ہے کہ 26ستمبر کے پارلیمانی انتخابات میں کوئی بھی جماعت واضح برتری حاصل نہیں کر سکی حکمران قدامت پسند جماعت کرسچن ڈیمو کریٹک یونین سے سخت مقابلے کے بعدسوشل ڈیموکریٹک پارٹی کومعمولی برتری ہی حاصل ہو ئی ہے ملک میں کُل ڈالے گئے ووٹوں کا سوشل ڈیموکریٹک پارٹی 25.7 اورموجودہ حکمران کرسچن ڈیموکریٹک یونین کو 24.1فی صدووٹ ملے ہیں جبکہ ماحول دوست سیاسی جماعت گرین پہلی بار14.8ووٹ لیکرملک کی تیسری بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے موجودہ حکمران جماعت نے گزشتہ الیکشن سے پچیس فیصد ووٹ کم لیے ہیں اِس حوالے سے وجوہات کا ذکر کیا جا چکا پارلیمان میں حکمران جماعت196 نشستوں کے ساتھ دوسرے جبکہ سوشل ڈیموکریٹک 205نشستوں کے ساتھ پہلے نمبر پر آئی ہے اور یہ کوئی زیادہ نمایاں فرق نہیں کسی بھی مناسب اتحاد کے ساتھ موجودہ حکمران جماعت کم ووٹ لینے کے باوجودسوشل ڈیموکریٹک کی جیت کی کو ختم کر سکتی ہے اِس لیے جیت کے باوجودشلزکے چانسلر بننے کے بارے میں وثوق سے کچھ کہنے کے بجائے یہ کہنا زیادہ آسان ہے کہ اتحادی حکومت بننے کا امکان ہے اولاف شلز کی طرف سے جیت کے دعوؤں کے باوجود مناسب اتحادی ملنے کی صورت میں آرمین شیٹ چانسلرکے چانسلر بننے کا امکان ہے مگر بننے والا اتحادکتنی مدت یاآیا چار برس تک قائم رہے گا اِس حوالے سے خدشات ہیں جرمنی کے حالیہ انتخابات نے بائیں بازوکے بنیاد پرستوں کو سخت مایوس کیا ہے عین ممکن ہے موجودہ چانسلر اینجلا مرکل اُس وقت تک منصب پر موجود رہیں جب تک نئے اتحاد کی صورتحال واضح نہیں ہو جاتی۔
نئے جرمن چانسلر کے لیے اقتدار آسان نہیں ہوگا مرکل کو فوربز کی طرف سے دس برس تک طاقتور ترین خاتون کا اعزاز ملتا رہا وہ خاموش طبع ضرور تھیں لیکن مسائل حل کرنے میں سنجیدہ نظر آتیں اب دیکھنا یہ ہے کہ نیا چانسلر جرمنی کو کیسے آگے لیکر چلے گا ماحولیاتی آلودگی کم کرنے کے لیے کتنا سنجیدہ کر دار ادا کرپائے گا ایک بات طے ہے کہ طاقتور معیشت مگر منقسم رائے کے حامل ملک کی قیادت کرنا بہت مشکل تر ہورہا ہے اہلیت اور صلاحیت کے خوب مظاہرے سے ہی اینجلا مرکل کی کمی پوری ہو سکتی ہے دونوں بڑی جماعتیں کر سمس سے پہلے اتحاد بنانے کے لیے کوشاں ہیں مگر کچھ مبصرین تیسرے اور حتمی مباحثے کے فاتح اولاف شلز کے بارے پُر امید ہیں کہ وہ اتحادی حکومت کا ہدف حاصل کر نے میں کامیاب ہوجائیں گے پھر بھی اِس حوالے سے اگلے دو ماہ اہم ہیں اور جرمنی کے آئندہ چانسلر کا انتخاب مشکل ہو سکتا ہے موجودہ حکمران جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین اور ماحول دوست جماعت گرین اگر اتحاد بناتی ہیں تو جرمنی میں سیاسی عدمِ استحکام کے اندیشے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔