پاکستان میں جوبھی حکومت برسراقتدار آتی ہے اس کا اپنا ایک خصوصی بیانیہ ہوتاہے جسے وہ ایک عہد نامہ بنا کر اپنے گلے میں لٹکائے پھرتی ہے مثلاً پیپلزپارٹی کا بنیادی بیانیہ روٹی، کپڑا اورمکان تھا۔ اب یہ تاریخ دانوں کا کام ہے کہ وہ بتائیں کہ وہ اس میں کہاں تک مخلص تھے۔ اسی طرح پاکستان مسلم لیگ میں نون کا اضافہ کرنے والے نواز شریف کی جب بھی حکومت آئی انہوں نے موٹرویز کو اپنا اولین بیانیہ بنا کر پیش کیا جس کی جھلک آپ کو ان کے ہر دور میں نظر آئے گی۔ پیپلزپارٹی کی عوام میں پیسے بانٹنے کے ذریعے غربت کے غیر منطقی خاتمے کے برعکس نواز شریف کا موٹروے بیانیہ ایک ایسا ثبوت ہے جسے آپ دیکھ سکتے ہیں Touch کر سکتے ہیں۔ اس پر سفر کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے کسی Study یا سروے کی ضرورت نہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کا اقتدار حاصل کرنے سے پہلے اور بعد ایک ہی بیانیہ ہے کہ ملک کے سارے مسائل کی جڑکرپشن ہے۔ احتساب ہونا چاہیے اورلوٹا ہوا مال واپس ہونا ضروری ہے۔ یہ بیانیہ بھی پیپلزپارٹی کے بیانیے کی طرح ایک کاغذی شیر ہے جو نظریاتی حد تک Exist کرتا ہے لیکن کوئی موٹر وے جیسی ٹھوس چیز نہیں ہے جس کو سامنے پیش کیا جا سکے یا دکھایا جاسکے بلکہ گزشتہ تین سال میں وزراء کی کرپشن کے ایسے ایسے قصے مشہور ہوئے ہیں کہ یہ بیانیہ آکسیجن کی کمی کا شکار نظر آتا ہے جس کی حیثیت صرف زبانی جمع خرچ کی ہے۔اس میں آڈٹ پر زور دیا جاتا ہے اور آڈٹ رپورٹ کہتی ہے کہ کرونا فنڈ سے 15 ارب روپے کا حساب غائب ہے۔ آٹا، گندم، چینی، پٹرول اور ادویات جیسے ایسے ایسے بحران سامنے آئے مگر احتساب والے کسی کا بال بیکا نہ کر سکے۔
اسی اثنا میں مایہئ ناز کامیڈین عمر شریف کی موت پر کہا جا رہا ہے کہ یہ ایک ایسا خلا ہے جو کبھی پورا نہیں ہو گا۔ یہ بات درست نہیں ہے سچ تو یہ ہے کہ حکومتی ترجمانوں نے عمر شریف کی کامیڈی کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے ابھی کل ہی ایک معزز ترجمان فرما رہے تھے کہ ہم نے عوام سے کیے گئے سارے وعدے 5 سال کے بجائے 3 سال میں پورے کر دیئے ہیں (50لاکھ نوکریاں اور ایک کروڑ گھر) اب ہم سوچ رہے ہیں کہ بقیہ دور میں ہم کیا کریں گے۔
وزیراعظم عمران خان کو تقریر کا عارضہ لاحق ہے۔ ان کے لے روزانہ سماع کا اہتمام کیا جاتاہے جہاں وہ اپنامرعوب مشغلہ پورا کرتے ہیں۔ اسی دوران جب ان کی کوئی نشست کسی فارن میڈیا سے ہو تو وہ ان کے لیے چھکا مارنے کی حامل ہوتی ہے۔ پھر وہ سکرپٹ بھول جاتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ایک ترکی چینل کو انٹرویو کے دوران انہوں نے ایک ایسی بات کر دی جسے رفو کرنا کسی ترجمان کے لیے ممکن نہ تھا۔ انہوں نے اعتراف کر لیا کہ پاکستان ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کررہا ہے اور یہ مذاکرات افغان طالبان کے توسط سے ہو رہے ہیں۔ اس انکشاف کے بعد اب مذاکرات کا آگے بڑھنا مشکل ہو چکا ہے بلکہ حکومت اتنی خفیہ بات کے غلطی سے منہ سے نکل جانے پر ششدر ہے کہ اس کو کیسے کنٹرول کیا جائے۔ وزیر داخلہ کہہ رہے ہیں کہ کوئی خفیہ مذاکرات نہیں ہو رہے۔ دوسری طرف اپوزیشن کہتی ہے کہ آپ TTP کو این آر او دینے پر تیار ہیں جن کے ہاتھ 85 ہزار پاکستانیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں لیکن آپ آئینی اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات تو کیا دیکھنے کو بھی تیار نہیں ہیں۔ حکومت اتنی بے بس ہے کہ اب کوئی بھی نہیں کہتا کہ اتنے بڑے حساس موضوع کو غیر ارادی طور پر شعلہ بیانی کی نذر کر دیا گیا۔ نہ تو پارلیمنٹ کو پتہ ہے اور نہ عوام کو پتہ ہے کہ TTP کے ساتھ کیا شرائط رکھی گئی ہیں۔ TTP ذرائع کہتے ہیں کہ وہ پاکستان کی جیلوں میں پاک فوج، پولیس اور شہریوں پرحملوں میں ملوث قیدیوں کی رہائی چاہتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ Domage Control کے طور پر اس موضوع کو میڈیا پر آنے سے روک دیا گیا ہے اور اس کو ایک دفعہ پھر پردے کے پیچھے دھکیلنے پر کام جاری ہے۔
ایک اہم پیش رفت یہ ہے کہ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض حمید کو کور کمانڈر پشاور تعینات کر دیا گیا ہے اور ان کی جگہ جنرل ندیم انجم انٹیلی جنس چیف بنادیئے گئے ہیں۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت نومبر 2022 ء میں ختم ہو گی۔ پشاور کور اس وقت پاکستان کی اہم ترین کور ہے کیونکہ یہ افغان سرحد پر تعینات ہے جنرل فیض حمید کو اس کی سربراہی دینا کافی معنی خیزہے کیونکہ اگلے ایک سال میں موجودہ حکومت نے نئے آرمی چیف کا فیصلہ کرنا ہے، اس کے لیے ابھی سے غیر اعلانیہ لابنگ شروع ہے۔ جنرل فیض حمید کے بارے میں قیاس آرائیاں بڑی مضبوط ہیں کہ وہ پاکستان کے نئے آرمی چیف ہوں گے یہ چونکہ ایک صوابدیدی فیصلہ ہے لہٰذا اس کا Suspense آخری بال تک قائم رہتا ہے۔ جنرل فیض حمید چونکہ قمرجاوید باجوہ کے دست راست ہیں، ان کے چیف بننے کا مطلب یہ انہی پالیسیوں کا تسلسل ہو گا۔
اس تسلسل کے سیاسی مضمرات میں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ ن دونوں اگلے انتخابات کی تیاری میں مصروف ہیں۔ Incumbency فیکٹر یا بر سر اقتدار آنے پر عوامی توقعات پر پورا نہ اترنے کا خمیازہ ہر پارٹی کو بھگتنا پڑتاہے۔ پی ٹی آئی کے لیے یہ بہت بڑا چیلنج ہے عوام الناس تاریخ کی بدترین بدحالی کا شکار ہیں۔ ڈالر 172 روپے میں بھی نہیں مل رہا جس کی ایک وجہ ڈالر کی افغانستان سمگلنگ بھی ہے۔ایکسپورٹ کے مقابلے میں امپورٹ کہیں زیادہ ہیں تجارتی خسارہ عروج پر ہے، پہلے کہا جار ہا تھا کہ PTI کے اقتدار کے اختتام پر ڈالر 200 تک چلا جائے گا مگر اب لگتاہے کہ شاید یہ اس سے بہت پہلے 200 عبور کر جائے گا۔ بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ پرفارمنس فیکٹر کو دیکھیں تو اس حکومت کی حالت بہت پتلی ہے۔
اس کے برعکس ن لیگ کا پرفارمنس گراف تمام تر الزامات کے باوجود اب بھی پی ٹی آئی سے بہتر ہے جس میں شہباز شریف کے طرز حکمرانی کی گونج صاف سنائی دیتی ہے لیکن شہباز شریف کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے بھائی کے خلاف بغاوت پر آمادہ نہیں ہیں ورنہ وہ وزیراعظم بن سکتے تھے لیکن ن لیگ کے اندرونی حالات پہلے سے زیادہ پیچیدہ
ہیں کیونکہ اب شہباز شریف کو نواز شریف سے نہیں بلکہ مریم نواز سے معاملات کرنا پڑتے ہیں۔ شہبازشریف بارہا مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے پر مسائل ہیں لیکن مریم نواز کی tone ان کی سیاست کے قطعی برعکس ہے اگر دونوں کے درمیان الائنمنٹ پرابلم حل نہ ہوئی تو یہ جماعت اگلا الیکشن نہیں جیت سکے گی حالانکہ اس وقت سیاسی اور انتخابی فضا ان کے لیے نہایت سازگار ہے۔ کنٹونمنٹ بورڈ الیکشن میں ن لیگ کی کارکردگی سب کے لیے حیران کن ثابت ہوئی۔ مسلم لیگ ن اگر unity of command پر کامیابی حاصل کر لے تو ان کے حالات میں تبدیلی آ سکتی ہے اس وقت بھی PTI میں جانے والے Electables گھر واپسی کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ ن لیگ کوریورس گیئر ڈان لیکس سے شروع ہوا تھا جو پانامہ لیکس پر اختتام ہوا اور ڈان لیکس میں مریم نواز کا رول ایسا تھا جس نے فوج اور حکومت کے درمیان جنگی صف بندی کی بنیاد رکھی جو ابھی تک جاری ہے۔ اگر مریم نواز کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر کل کے بیان کو گہرائی سے دیکھا جائے تو ان کا مؤقف پارٹی کے لیے گلے کی ہڈی بن سکتا ہے۔ بہرحال ایک سال کا ٹائم ہے اس کے بعدالیکشن ایئر شروع ہو جائے گا جس میں جنرل باجوہ نہیں ہوں گے وہ ایک سال پاکستان کی 2023ء سے 2028ء تک کی قیادت کا تعین کرے گا۔ پاکستان کی حالیہ عوامی حالت زار پر نوابزادہ نصر اللہ خاں مرحوم نے کیا خوب لکھا ہے:
غارت گریئ اہل ستم بھی کوئی دیکھے
گلشن میں کوئی پھول نہ غنچہ نہ کلی ہے
کب اشک بہانے سے کٹی ہے شب ہجراں
کب کوئی بلا صرف دعاؤں سے ٹلی ہے