کل شام کی بات ہے میں اپنے گھر کے قریب ہی ایک پارک میں چہل قدمی کر رہا تھا اور کافی دور مجھے سردار عبد الرب نشتر خان خٹک بھی ورزش کرتا ہوا نظر آیا۔ وہ مجھے الیکشن 2018ء کے دوران اسی پارک میں ملا تھا تب وہ عمران خان اور تحریک انصاف کا جوشیلا ووٹر تھا اور سپورٹر بھی۔اس وقت اس نے مجھے بتلایا تھا کہ میرا یہ نام والدین نے سردار عبد الرب نشتر مرحوم سے متاثر ہو کر رکھا تھا۔ میں ان مرحوم اور موجود نشتر کو ہی سوچ رہا تھا تو اتنے میں نشتر دوڑتا ہوا میرے پاس آگیا۔ سانس اس کا پھولا ہوا تھا اور وہ خوشی سے پھولے نہیں سمارہا تھا بلکہ پھدک رہا تھا۔ آتے ساتھ ہی وہ کہنے لگا کہ کل پورے پنڈی کا بڑا جلسہ تھا جس میں میاں شہباز شریف نے تبدیلی کے تابوت کی تدفین والی بات بتلا دی ہے اور ایک بہت ہی بڑی خوشخبری سنا دی ہے، اس نے کہا ہے کہ 2023ء میں PTIدفن ہو جائے گی۔ میں نے عرض کیا کہ آپ ورکرز کنونشن کی بات کر رہے ہیں لیکن میاں شہباز نے تو مریم نواز کی نفی کر کے "ن" کی تدفین کا پیغام دیا ہے یہ کہہ کر کے "آرمی چیف کی توسیع کا فیصلہ درست تھا جبکہ مریم نواز اس فیصلے کو گناہ بول رہی ہیں۔ وہ کہنے لگا کہ یہی تو جمہوریت کا حسن ہے جس میں رائے سب کی اپنی اپنی ہے لیکن جن لوگوں کی یہ خواہش ہے کہ ن کا نقطہ اڑ جائے گا اس کے تین "ٹُنڈ" نکلیں گے اور "ن "جلد "ش "کی شکل اختیار کر لے گی۔انشاء اللہ یہ خواہش کبھی خبر نہیں بنے گی کیونکہ شہباز شریف، مریم نواز اور حمزہ شہباز ان سب کا قائد ایک ہے اور وہ نواز شریف ہی ہے اور پھر وہ گانے لگا کہ؛
ہمارے سب کے دلوں کی دھڑکن نواز شریف
خبر یہ بھی ہے کہ اس نئے پاکستان میں پیٹرول کے بعد اب تبدیلی سرکار گھریلو صارفین کیلئے گیس کی قیمتوں میں بھی 35فیصد تک اضافہ کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔ ہم پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں اس حکومت نے تو غریب عوام کا کچومر نکال دیا ہے۔ بجلی، گیس، پٹرول، آٹا، چین، گھی، دالیں، سبزیاں سستا کیا ہے ہر چیز مہنگی ہے حتیٰ کہ ادویات تک۔ اس سے قبل کسی بھی حکومت میں ادویات کی قیمتوں میں اس قدر اضافہ کبھی نہیں ہوا۔ گزشتہ تین سالوں میں
پہلے کیا کم اضافے ہوئے ہیں جو گیس کی قیمت میں مزید اضافے کا سوچا جا رہا ہے۔ ملکی معیشت تبدیلی نہیں تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ اس کمر توڑ مہنگائی کی وجہ سے لوگ خود کشیوں پر مجبور ہیں۔ فیصل کریم کنڈی کہتے ہیں کہ جب وزیر اعظم پھٹیچر اور وزیرریلو کٹے ہوں تو ملک کا یہی حشر ہوتا ہے۔ خیراب تو کپتان کے اپنے وزیر کھلاڑی بھی اپنی ناکامیوں کا اعتراف اعلانیہ فرما رہے ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری فرماتے ہیں کہ بلدیاتی انتخابات نہ کرانا پی ٹی آئی حکومت کی سب سے بڑی ناکامی ہے جبکہ پی ایم کے دوست سینئر تجزیہ کار ہارون الرشید کہتے ہیں کہ ان حالات میں بلدیاتی انتخابات کرانا پی ٹی آئی کیلئے خود کشی کے مترادف ہو گا۔ فواد چوہدری نے مزید کہا کہ PMکو تو شہ خانہ معاملہ میں تلاشی سو فیصد دینی چاہئے۔ کاش چوہدری صاحب PMکو فارن فنڈنگ کیس میں بھی تلاشی دینے کا مشورہ بھی دے ڈالتے اور اب ملاحظہ فرمایئے، وزیر سائنس شبلی فراز کی سائنس، فرزند فراز جی فرماتے ہیں کہ کچھ وزارتوں میں معاونین خصوصی چیلنج پورا نہیں کر سکے یا ان کی سیاسی وزیروں کے ساتھ بن نہیں سکی۔ مسلم لیگ ن پنجاب کے صدر اور سابق صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ بتلا رہے تھے کہ درجنوں حکومتی ارکان اپنے اپنے سیاسی مستقبل کیلئے مسلم لیگ ن سے رابطے کر رہے ہیں۔
آج میرے پاکستان مین غریب عوام کا سب سے بڑا مسئلہ غربت، بھوک، بے روزگاری ہے۔ لوگوں کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔ عام آدمی دو وقت کی روٹی کو ترستا ہے۔ بس تبدیلی تبدیلی کا الاپ ہے بلکہ تاپ ہے مگر بدلا کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ کپتان کبھی کروڑوں لوگوں کی امیدوں کا مرکز ہوا کرتے تھے کیونکہ کپتان نے الیکشن 2018ء میں غریب عوام کو ایک کروڑ نوکریوں کا چکمہ دیا تھا۔ نوجوان غمِ روزگار میں نوکریوں کی تلاش میں گھروں سے نکلتے ہیں لیکن نوکری نہیں ملتی تب وہ کہتے ہیں کہ کروڑ نوکریوں کا نعرہ بھی ایک لالی پاپ ہی ہے۔ یہ نوجوان ممالک و اقوام کا مستقبل ہوتے ہیں اور سوچنا یہ ہے کہ ہمارا مستقبل کیا ہوگا۔ میرے اپنے ہی ایک شعر کی صورت میں حاکم وقت کی خدمت میں عرض ہے کہ!
بے کسوں کے سنگ ہو جا کبر سے دور کنارا کر
بن تو آس یتیموں کی، بے چاروں کا چارہ کر