افغانستان میں حقوق نسواں کی پامالی کا واویلا

Sohail Ahmad Azmi, Pakistan, Naibaat newspaper,e-paper, Lahore

 ہمیں عورتوں کے حقوق بتانے والے اپنے ممالک میں عورتوں کے حقوق پورے کریں،عالمی برادری کو عورتوں کے حقوق کی جتنی فکر افغانستان میں ہے،اس کا دس فیصد بھی کشمیر وفلسطین کے بارے میں ہوجائے تو دنیا میں امن قائم ہوسکتاہے،یہ الفاظ ہیں نائب وزیر اطلاعات وثقافت افغانستان ذبیع اللہ مجاہد کے،انہوں نے صرف دو ملکوں کا ذکر کیا اگروہ پورے یورپ خاص کر امریکہ کو بھی اس میں شامل کرلیتے تو ان کی بات سوفیصد درست ہے کہ آج جو استحصال عورت کا اہل یورپ کررہے ہیں اس کا کوئی موازنہ اسلام میں عورت کے مقام سے ہوتاہی نہیں ہے،اگر عورت کو مادر پدر آزاد معاشرے کی طرز پر کھلی چھٹی دینا اور انہیں اپنی اشیاء کو فروخت کرنے کے لئے بطور ماڈل ننگ دھڑنگ پیش کرنا اور انہیں اپنے دفاتر،کاروباری مراکز،میڈیا،فلم انڈسٹریز،ڈراموں،ٹی وی چینلز پر مردوں کی ہوس نظر کرکے کھربوں کی انڈسٹریز کو چلا نا،عورتوں کو سیکس انڈسٹری میں استعمال کرکے کھربوں کمانا ہی حقوق نسواں ہے تو ایسی آزادی انہیں افغانستان میں ملنا ناممکن ہے،اسلام نے اور اسلامی معاشرے ونظام نے عورت کو جو مقام دیا ہے وہ کسی مذہب معاشرے،نظام نے نہیں دیا،اسلام نے صنف نازک کو کولہو کے بیل کی طرح استعمال کرنے کا حکم نہیں دیا،جس طرح آج یورپی معاشرے میں ہورہا ہے،یورپ میں روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں عورتوں کو ریپ کیا جاتاہے،ماں کو معلوم نہیں ہوتا کہ اس کے پیٹ میں جو بچہ پروان چڑھ رہا ہے،اس کا باپ کون ہے،ڈی این اے ٹیسٹ سے باپ کا پتہ کیا جاتاہے،حال ہی میں غالباً فرانس کی ایک خاتون وزیر کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل تھی جو کہ حاملہ تھی اور حقوق نسواں کی تحریک کی علمبردار ہے،اس کے پیٹ میں بچے کے بارے میں مبینہ طور پر لکھا تھا کہ آٹھ مختلف حکومتی اہم وزراء،اراکین اس کے بچے کے باپ ہونے کے دعویدار ہیں،ایسے معاشرے کو ہمارے ملک پاکستان میں بھی مغربی سوچ کے حامل دانشور،صحافی،حقوق نسواں اور عورت مارچ کے کرتا دھرتا مہذب معاشرہ کہتے ہیں،اسلام نے عورت کو ماں کی حیثیت سے وہ درجہ دیا جو کسی مذہب نے نہیں دیا،یعنی جنت کو ماں کے قدموں کے نیچے بتلایا،اپنے شوہر کی جائیداد میں ایک حصہ بیٹی، دو حصہ بیٹے کو دیا اور 1/8 حصہ بیوی کو دینے کا حکم دیا جبکہ اگر باپ اپنی زندگی میں جائیداد اپنے وارثین میں تقسیم کرتاہے تو وہ تمام بچوں میں برابر برابر تقسیم کرے گا،اور ہمارے نبی ؐنے بتایا کہ جو اپنی ماں،بہن،بیٹی کو جائیداد میں وراثت نہیں دے گا اس کی کوئی عبادت قبول نہیں ہے،وہ الگ بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں نوے فیصد لوگ اپنی عورتوں کو شرعی جائیداد سے محروم کرکے جہنم کا سودا کرنے میں مصروف ہیں،آج جن اسلامی ممالک میں مخلوط طرز تعلیم کو اہل یورپ کی تقلید کرتے ہوئے بشمول پاکستان رائج کیا جارہا ہے وہاں کی نوجوان نسل کا حال تو پتہ کریں کہ کیا ہو گیا ہے،زنا عام اور شادیاں کرنا مشکل سے مشکل ہوتا جارہا ہے،پاکستان میں 51 فیصد عورتیں اور 49 فیصد مردوں کی آبادی ہے،ایک سروے کے مطابق دیہاتوں وغیرہ میں جہاں ہمارے اسلامی رسم ورواج  و اصولوں کو مدنظر رکھا جاتاہے میں شادیاں کرنے کا رجحان آسان اور زیادہ ہے لیکن حقوق نسواں کے نام پر ہم نے جو آزادی اپنی لڑکیوں کو تعلیمی اداروں،دفاتر،ٹرانسپورٹ،ٹرین،پولیس،فوج،میڈیا وغیرہ میں دی ہے،اس سے کتنی خرابیاں پید ا ہورہی ہیں،شادیاں کرنا اور اچھے رشتے ملنا مشکل سے مشکل ترہوتا جارہا ہے،برے سے برا مرد بھی یہ چاہتاہے کہ اس کی بیوی حیا دار،پردے والی ہو،مخلوط طرز زندگی سے مردوعورت کے تعلقات،دوستیاں آجکل عام ہیں جن کی اجازت ایک اسلامی معاشرہ کبھی بھی نہیں دے سکتا،افغانستان کے مجاہدین نے بیس سال امریکہ اور نیٹو کے 28 ممالک کی لاکھوں کی فوج کے خلاف اپنے لاکھوں مسلمانوں کی قربانیاں دے کر یورپ کی طاقتوں بشمول امریکہ،برطانیہ،فرانس،کینیڈا،آسٹریلیا وغیرہ کو وہاں سے دم دبا کر بھاگنے پر اس لئے مجبور نہیں کیا کہ وہ افغانستان  میں ان کا مادر پدر آزاد معاشرہ ترتیب دیں، وہ اسلام کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے عورتوں کو کام کرنے، تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دے رہے ہیں، مجھے افغانستان کے وزیر اطلاعات کی اس بات سے اتفاق ہے کہ اگر اہل یورپ،ہندوستان عورتوں کے حقوق کی صحیح معنوں میں حقیقی علمبردار ہے تو وہ کشمیر،فلسطین،شام،برما ودیگر ممالک میں عورتوں پر جو ظلم وستم ہورہا ہے کو بند کرانے، ایک ارب تیس کروڑ آبادی کے ملک ہندوستان نے کشمیر ی مسلمان عورتوں کا جو استحصال کیاہے،ہزاروں کی تعداد میں مسلمان عورتوں کے ساتھ ریپ،اغوا کے واقعات پر عالمی برادری اور حقوق نسواں کی تنظیمیں کیو ں خاموش ہیں؟