موجودہ دور ترجمانوں اور مشیروں کا دور ہے، وزراء کی نسبت ترجمان زیادہ اہمیت حاصل کر چکے ہیں۔ ترجمان دراصل کسی محکمہ، ادارے، ملک حتیٰ کہ شخصیت کی پالیسیوں، مؤقف اور کردار کا چہرہ ہوتا ہے۔ موجودہ حکومت اور کابینہ کی کارکردگی،کارروائیاں، کہہ مکرنیاں اور آئینی خلاف ورزیاں، دہرے معیار، تہرے بلکہ ہمہ جہت معیار اور کردار اپنی جگہ مگر حکومت کے مشیروں اور ترجمانوں نے حکومت کی ساکھ کا بیڑا غرق کر کے رکھ دیا۔ دیکھا گیا کہ سرکاری اداروں اور محکمہ جات کے ترجمان بہت بہترکارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یقینا اُن کی تربیت، معاملہ فہمی، آگہی، شہرت، تعلیم اور تجربہ اُن کی حقیقی قوت ہوتا ہے۔ محض سیاسی اعتبار سے یا کسی اور حوالے سے نہیں خالصتاً جو کردار اور ذمہ داری دی جائے اس حوالے سے ہی کسی کارکردگی کا جائزہ لینا چاہیے۔ شاعر سے ویٹ لفٹنگ، ویٹ لفٹر سے شاعری، ڈاکٹر سے موت کے کنوئیں میں موٹر سائیکل اور کھلاڑی سے سائنسدان کی توقع نہیں کر سکتے۔
ہر ظاہر کا ایک باطن ہوتا ہے حتیٰ کہ زندگی کا باطن موت ہے لہٰذا جتنے بھی تجزیے اور گفتگو ہوتی ہے وہ ظاہر کو مدنظر رکھ کر ہی کی جاتی ہے۔ باطن کا انکشاف تو وقت کے ساتھ ہوتا ہے اور بعض اوقات اس کے فیصلہ کے لیے سال بلکہ صدیاں درکار ہوتی ہیں۔ سیاسی حوالے سے میں ہمیشہ ہی اداروں کے سیاست میں ملوث ہونے کا مخالف رہا ہوں لیکن جو کسی کا عمل قابل ستائش ہو اس میں اظہار کرتے وقت بخل سے کام نہیں لینا چاہیے۔
ترجمان کے حوالے سے جناب جنرل آصف غفور کا کردار اور مہارت بطور ڈی جی آئی ایس پی آر ابھر کر سامنے آئے۔شاید ہی کوئی ڈی جی آئی ایس پی آر ان جیسا پہلے کبھی دیکھا گیا ہو۔ خاص طورپر جن دنوں بھارت کے مودی کھل نائیک کی شعبدہ بازیاں اور رنگ بازیاں عروج پر تھیں، ابھی نندن کے واقعے پر جناب جنرل آصف غفور کی بریفنگ لاجواب تھی۔ کسی بھی موضوع پر میں نے ان کی کسی تقریر میں کوئی ایک لفظ کم یا زیادہ نہیں سنا اور الفاظ کا چناؤ بھی لاجواب ہوتا تھا۔ جنرل صاحب نے ابھی نندن کے واقعہ کے دنوں میں کہاکہ ”جگہ اور وقت کا تعین ہم کریں گے“ پھر دوبارہ بریفنگ میں کہا کہ ”اگر جنگ ہوئی تو دنیا نئے حربے اور ہتھیار دیکھے گی“۔ یقینا ان کی بریفنگ ان دنوں قومی ہم آہنگی کی عکاس تھی جبکہ حکومتی ترجمان اور مشیر قومی ہم آہنگی کے
برعکس محو گفتگو پائے گئے۔ جنرل آصف غفور کی بریفنگ خصوصاً جو بھارت کے متعلق عسکری حوالے سے دی گئی اس حد تک متاثر کن تھی کہ اس کی پذیرائی بھارت میں بھی ہوئی حتیٰ کہ بھارتیوں نے بھی ISPR جیسے ادارے کا مطالبہ کیا۔ جناب جنرل آصف غفور کا بطور ڈی جی آئی ایس پی آر (ترجمان پاک فوج) کا کردار انتہائی قابل ستائش رہا۔ ا ب آتے ہیں سیاسی حوالے کی طرف حکومتی اتحاد اور موجودہ حکمران اپنے مشیروں اور ترجمانوں کی فوج ظفر موج رکھتے ہیں لیکن اصلاح کے بجائے تخریب کا ہی سبب بنتی رہی اور بن رہی ہے۔ ن لیگ کے چند لوگ بھی معتبر انداز میں پارٹی کی ترجمانی کرتے دیکھے گئے جن میں ڈاکٹر فضل طارق چوہدری، خواجہ سعد رفیق وغیرہ شامل ہیں مگر پیپلزپارٹی اس حوالے سے سب سے زیادہ بالغ نظر ثابت ہوئی ہے۔ آپ مصطفی نواز کھوکھر جو کہ بلاول بھٹو کے ترجمان رہے ہیں شاید اب بھی ہوں مگر میڈیا پر پیپلزپارٹی کی نمائندگی کرتے ہیں کو ہی لے لیں ابھی تک سیاست دانوں کے کردار کے حوالے سے مثبت تاثر پیدا کرنے میں زبردست کامیاب رہے ہیں۔
مصطفی نواز کھوکھر کی گفتگو موضوع سے نہیں ہٹتی اور انتہائی نپے تلے انداز میں اپنا نقطہئ نظر بیان کرتے ہیں۔ ایک اچھی روایت ہے جسے پیپلزپارٹی نے جاری رکھا ہوا ہے۔ بیوروکریسی کے حوالے سے بھی ترجمان رکھنے کی روایت درآئی ہے۔ اگلے روز میں نے ایک کالم پڑھا کالم نگار FBR کے میڈیا ایڈوائزر اور ترجمان ہیں وہ اپنی تعیناتی کے دوران کمشنر سرگودھا کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ انہوں نے کاروباری لوگوں سے دوستانہ ماحول پیدا کیا۔ مساجد میں ممبر رسولؐ سے امام کی موجودگی میں لوگوں کو ٹیکس دینے کی ترغیب دی، ملک کے نامور علماء، کھلاڑیوں، فنکاروں سے وائس اور ویڈیومیسجز دلوائے جس سے ریونیو اکٹھا کرنے میں خاطر خواہ فائدہ ہوا اس دوران انہوں نے میڈیا سے بھی قریبی مگر مثبت تعلق رکھا۔ خود بھی کالم نگار ہیں اور وہ عوام حکومت اور FBR میں ایک پل کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ محکمہ کسٹم کے فخر پاکستان، ستارہئ امتیاز، ہلال امتیاز اور اب وفاقی محتسب ٹیکس جناب آصف محمود جاہ ہیں جن کی انسان دوستی، خدمات اور کردار کا ایک زمانہ گواہ ہے۔ کلکٹر جناب محمد صادق جو کہ تنولی پٹھان ہیں کمال کے دانشور، درویش، دیانت دار اور عوام دوست آفیسر ہیں، کلکٹر محترمہ طیبہ کیانی اپنے نام کی طرح طیبہ کردار کی حامل ہیں جبکہ کلکٹر محترمہ نورین احمد تارڑ صاحبہ کی دیانت، کام میں لگن اپنی مثال آپ ہے۔ ان لوگوں کے لیے تو میں کتابیں لکھ سکتا ہوں۔ محمد محسن رفیق،جنا ب مرزا مبشر بیگ کلکٹر صاحبان قابل ذکر اور مثبت نام ہیں چیف کلکٹر فیض محمد چدھڑ و دیگربہت عمدہ شخصیات ہیں جوکسٹم اور ایف بی آر کا خوبصورت چہرہ ہیں لیکن میرے مشاہدے میں جناب اسد طاہر جپہ ایک خوبصورت شخصیت کا اضافہ ہیں ان کا طریقہ کار حب الوطنی پر مبنی ہے لیکن میں سمجھتا ہوں علماء، کھلاڑی، فنکار تو درکنار سارا ملک بھی کہتا مگر جب تک ان کا ذاتی کردار اور عمل شامل نہ ہوتا تو مثبت، نتائج ممکن نہیں تھے۔ ان کے کالموں سے ایک دانشور، انسان دوست اور محب وطن شخصیت کا تاثر ملتا ہے۔ چیئرمین ایف بی آر جناب ڈاکٹر محمد اشفاق احمد نے انتہائی خوش آئند فیصلہ کیا جوایک زیرک اور محنتی شخصیت کو ایف بی آر کے ترجمان اور میڈیا ایڈوائزر کی ذمہ داری سونپی ہے۔
حضرت عمرؓ نے ایک گورنر کی تعیناتی پر اس کو رخصت کرتے وقت کہا کہ جب ٹیکس وصول کرو تو ٹیکس دینے والے کا ایک نظر چہرہ ضرور دیکھنا۔ کہیں اس کی پریشانی پر ناگواری یا زیادتی کے بل تو نہیں آتے دراصل حکمرانوں کو حساس اور عوام دوست ہوناچاہیے۔ FBR نے اپنا ترجمان اور میڈیاایڈوائزر ایک ایسے شخص کو نامزد کیا جو میڈیا دوست، دانشور بھی اور حساس آدمی بھی ہیں۔ا ب ان کے اختیارات کا علم نہیں کہ وہ صرف FBR کی ترجمانی ہی کریں گے یالوگوں کے مسائل کے ترجمان بن کر FBR کے متعلقہ شعبہ تک ان کی رسائی کرا کر داد رسی بھی کر پائیں گے؟ایف بی آر کے مثبت پہلو اور چہرے کو نمایاں کرنے کی ضرورت ہے جس کے لیے منفی تاثر کو کردار کے ذریعے رد کیا جا سکتا ہے اور اس حوالے سے جناب اسد طاہر جپہ کی تعیناتی یقینا چیئرمین ایف بی آر کے ارادوں، مثبت خیالات اور ٹارگٹ کے حصول کے لیے ممدو ثابت ہو گی۔ اگر کسی محکمہ، ملک،شخصیت بلکہ معاشرے کا ترجمان خود اعلیٰ کردار اور اخلاق، گفتار اور مزاج کا مالک ہو گا تو یقینا جس کی ترجمانی کرے گا اس کا خوبصورت چہرہ کہلائے گا جس سے منفی تاثر جاتا رہے گا۔ بقول معروف محققہ پروفیسر فائزہ بٹ کسی بھی شخص کا دوسرا چہرہ تلاش کرنے کی کوشش مت کرو۔ آپ کے لیے یہی کافی ہے کہ اس نے آپ کا احترام کیا اور خود کو آپ کے سامنے اچھا پیش کیا۔