پشاور: چارسدہ میں ڈھائی سالہ زینب کو زیادتی کے بعد قتل کرنے کے خلاف پشاور اور چارسدہ میں احتجاج کیا گیا۔ مظاہرین نے قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔ وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان مقتول بچی کے پہنچے اور اہل خانہ سے تعزیت کی۔
اس موقع پر علی محمد خان نے کہا کہ جب تک ریپ کرنے والوں کو چوک پر نہیں لٹکایا جاتا ایسے جرائم کا خاتمہ نہیں ہوسکتا۔ وزیر اعظم شکایت سیل نے واقعے کا نوٹس لے لیا ہے۔
واضح رہے کہ چارسدہ میں ڈھائی سال کی بچی کو زیادتی کے بعد قتل کرنے کا افسوس ناک واقعہ پیش آیا ہے اور پولیس کا کہنا ہے کہ کھیتوں سے ڈھائی سالہ بچی کی لاش ملی جسے اغوا کرکے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور پھر قتل کردیا گیا۔
ڈی ایچ کیو چار سدہ کی میڈیکل آفیسر نے بچی کے ساتھ زیادتی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ بچی کو بے رحمانہ طریقے سے قتل کیا گیا اور اس کے جسم پر تشدد کے نشانات بھی پائے گئے۔
پولیس کی تفتیش میں اب تک کچھ سامنے نہ آسکا اور مزید 7 افراد کے پکڑے جانے کے بعد زیر حراست افراد کی تعداد 15 ہو گئی ہے۔
ملزمان میں بچی کے رشتے دار بھی شامل ہیں۔ پولیس نے ملزم کے بالوں کے نمونے ملنے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ بچی کی ڈی این اے رپورٹ اب تک موصول نہیں ہوئی۔
واضح رہے کہ قصور میں زینب ریپ و قتل کیس کے دو سال بعد قومی اسمبلی سے زینب الرٹ بل منظور کیا گیا تھا جس مں بچوں سے زیادتی، تشدد اور قتل کے واقعات کی تیز تر تفتیش اور ملزمان کو فوری سزا کو یقینی بنایا گیا۔
سندھ پولیس نے بھی اس سلسلے میں موبائل فون ایپلی کیشن 'دی زینب الرٹ‘ تیار کی تھی جس سے بچوں سے جرائم میں ملوث افراد کا ڈیٹابیس تیار کرنے میں مدد ملے گی۔
ملک میں نئے قوانین بنائے جانے کے ساتھ ساتھ ہر سطح پر احتجاج کے باوجود بچوں سے زیادتی، تشدد اور انہیں قتل کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور پاکستان میں سال 2020 کے پہلے حصے میں ایک ہزار 489 یعنی روزانہ کم از کم 8 بچوں کو جنسی استحصال کا نشانہ بنایا گیا۔
بچوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم 'ساحل' کے مطابق ان میں سے 331 بچوں کو اغوا، 160 کو ریپ، 233 سے غیر فطری تعلق قائم کیا گیا، 69 کا گینگ ریپ جبکہ 104 سے گینگ نے غیر فطری تعلق قائم کیا۔
ساحل کے اعداد و شمار کے مطابق ان میں سے 13 لڑکوں اور 12 لڑکیوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا گیا جبکہ ایک بچی کا گینگ ریپ کے بعد قتل کیا گیا۔