اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاکپتن دربار سے ملحقہ زمین پر دکانوں کی تعمیر کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران 1985 میں پنجاب کے وزیراعلیٰ نواز شریف کو نوٹس جاری کر دیا۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس اور وکیل کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے پاکپتن دربار کی زمین پر دکانوں کی تعمیر کے کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور قطب دیوان کے وکیل افتخار گیلانی عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران عدالت کو بتایا گیا کہ پاکپتن دربار سے ملحقہ محکمہ اوقاف کی 8 ہزار کنال زمین 1985 میں ایک آرڈر کے تحت دیوان غلام قطب الدین کو فروخت کر دی گئی تھیں۔ بعدازاں اس جائیداد کو محکمہ اوقاف نے وقف زمین قرار دے دیا اور اس ضمن میں عدالت کا فیصلہ بھی آ چکا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ '29 سال قبل محکمہ اوقاف کی اراضی پر دکانیں بنانے کی اجازت دی گئی'۔ ساتھ ہی استفسار کیا کہ 'دکانوں کی تعمیر کی اجازت کس قانون کے تحت دی گئی؟'۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ '1985 میں سیکریٹری اوقاف کون تھا؟ انھیں بھی نوٹس جاری کر رہے ہیں'۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے جواب دیا کہ 'اُس وقت کے سیکریٹری صاحب وفات پا چکے ہیں'۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 'کس قانون کے تحت نوٹیفکیشن واپس لیا گیا؟'
وکیل افتخار گیلانی نے موقف اختیار کیا کہ 'جس اتھارٹی کے تحت جائیداد واپس لی گئی، اُسی کے تحت واپس بھی دی گئی'۔
افتخار گیلانی نے مزید کہا کہ '29 سال بعد سپریم کورٹ کہتی ہے کہ نوٹیفکیشن غیر آئینی تھا'۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 'ہاں سپریم کورٹ یہ کہہ سکتی ہے اور یہ اختیار حاصل ہے کیونکہ سپریم کورٹ پاکستان کے آئین کی محافظ ہے'۔
وکیل افتخار گیلانی نے جواب دیا کہ 'پاکستان کے عوام پاکستان کے آئین کے محافظ ہیں اور سپریم کورٹ بھی آئین اور قانون کے تابع ہے'۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 'آپ اپنی آواز دھیمی کریں اور لہجہ درست کریں'۔
وکیل افتخار گیلانی نے جواب دیا کہ 'ایسی صورتحال میں درخواست کروں گا کہ میرے مقدمات اپنے بنچ پر مقرر نہ کریں'۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ 'میں اپنے ہی بنچ پر آپ کے کیسز لگاؤں گا آپ جب آتے ہیں عدالت پر چڑھائی کر دیتے ہیں آپ سمجھتے ہیں کہ جج آپ کے بچے ہیں'۔
اس موقع پر وکیل افتخار گیلانی نے کہا کہ 'اگر نوٹس کرنے ہیں تو پورے پاکستان میں ایسی جائیدادوں کے مالکان کو کریں اس طرح کے 8 ہزار لوگ ہیں'۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ 'سب کو نوٹس جاری کریں گے'۔
سماعت کے بعد عدالت عظمیٰ نے نواز شریف کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کر دی۔