تحریک انصاف کے قائد عمران خان کے لانگ مارچ پر فائرنگ کے پانچویں روز تھانہ سٹی وزیر آباد نے اس واقعے کی ایف آئی آر درج کر لی ہے یہ اندراج سپریم کورٹ کی طرف سے سووموٹو نوٹس لئے جانے کی وارننگ کے بعد ہوا ہے۔ اس سے پہلے پولیس ڈٹی ہوئی تھی کہ وہ عمران خان کے کزن کی طرف سے دی ہوئی درخواست پر ایف آئی آر درج نہیں کرے گی۔ جو ایف آئی آر پانچویں روز درج کی گئی یہی ایف آئی آر پولیس پہلے روز ہی درج کرنا چاہتی تھی مگر پنجاب حکومت نے اسے روک دیا، وزیراعلیٰ پنجاب کے صاحبزادے مونس الہی نے اپنے بیان میں اس کی ذمے داری قبول کی ہے اور جواز دیا ہے کہ وہ پولیس کی مدعیت میں نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر کا اندراج نہیں چاہتے تھے۔ پنجاب کی حکومت چاہتی تھی کہ اپنے سیاسی مخالفین کو اس مقدمے میں ملوث کیا جائے جو ایک پرانی اوربری روایت ہے۔ ہمارے دیہات میں یہی ہوتا ہے کہ ایک شخص جرم کرتا ہے اور اس کے بعد مظلوم کے لواحقین کی بدمعاشی شروع ہوجاتی ہے۔ وہ ملزم کے ساتھ ساتھ اس کے باپ، بھائی، چچا، تایا، بھتیجے اور دوستوں سمیت ان سب کو نامزد کر دیتے ہیں جن کو وہ رگڑا لگانا چاہتے ہیں، ہماری جیلیں ایسے نامزد ملزمان سے بھری پڑی ہیں۔
میں نے تھانہ سٹی وزیر آباد کی ایف آئی آر نمبر691/22 کا ایک ایک حرف پڑھا ہے اور مجھے اس میں ایک بھی بات جھوٹ نظر نہیں آئی۔ اس ایف آئی آر میں سب انسپکٹر عامر شہزاد نے فائرنگ کرنے والے ملزم نوید ولد بشیر سکنہ سوہدرہ ضلع وزیرآباد کے ساتھ ساتھ عمران خان سمیت تمام زخمیوں کے نام لکھ کے وہ واقعہ من و عن تحریر کردیا ہے جو تمام ٹی وی چینلوں پر نشر ہوا۔ دوسرا اس میں درج ہے کہ عمران خان طبی امداد کے لئے لاہور روانہ ہو گئے اورمضروبان کے ساتھ ساتھ معظم کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لئے بھجوا دیا گیا، سوال یہ ہے کہ اس میں کیا غلط ہے، کیا جھوٹ ہے مگر پی ٹی آئی کے دوست جھوٹی ایف آئی آر کے ٹرینڈ چلا رہے ہیں اور اسے ردی کا ٹکڑا قرار دے رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ اس ایف آئی آر پر پکوڑے ہی رکھ کے کھائے جا سکتے ہیں اس کے سوا اس کا کوئی دوسرا استعمال ہی نہیں ہے۔ میں نے بطور صحافی تحریک انصاف کے بہت سارے رہنماوں سے پوچھا ہے کہ ان کے پاس شہباز شریف، رانا ثناء اللہ اور فیصل نصیر کے خلاف کیا شواہد موجود ہیں تو جواب میں وہی سیاسی کہانی ہے جو زبیر نیازی کی طرف سے دی گئی درخواست میں بیان کی گئی ہے کہ ہماری حکومت غیر ملکی مداخلت اور سازش سے توڑی گئی، ہم بہت مقبول ہو چکے ہیں لہذا ہمارے مخالفین کی نیندیں حرام ہوچکی ہیں۔ ایک امریکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے اینکر کے سوالوں کے جواب میں عمران خان تک کوئی شواہد پیش نہیں کرسکے۔میں اب بھی یہ کہتا ہوں کہ بات صرف ایف آئی آر کے اندراج، تفتیش اور ضمنیوں تک محدود نہیں، یہ مقدمہ فیصلے کے قریب بھی ہو تب بھی اگر ان کے پاس ثبوت موجود ہوں تو پیش کریں لیکن محض دشمنی، تعصب اور بغض کو بنیاد نہ بنائیں۔
اگر آپ مجھ سے پوچھیں تو پنجاب پولیس نے واحد اچھا کام یہ کیا ہے کہ ایف آئی آر کو سو فیصد فوجداری قانون کے مطابق درج کیا ہے ورنہ اس سے پہلے جو کچھ ہو رہا تھا وہ آئین، قانون اورضابطہ فوجداری کی تباہی تھی۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جرم ہونے کے بعد، جس میں معظم نامی ایک شخص کی جان گئی، مقتول کے لواحقین ہی اس ایف آئی آر کے سب سے بڑے او رجائز مدعی تھے۔ جناب عمران خان دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں چار گولیاں لگیں جو اپنی جگہ حیرت انگیز ہے کہ جہاں آپ کو خول ہی آٹھ، نو ملے ہوں اور ان میں سے چار گولیاں عمران خان کو لگ گئیں، دو حامد ناصر چٹھہ کے بیٹے کولگ گئیں، ایک دو ظاہر ہے کہ مقتول کو بھی لگی ہوں گی اور ایک فیصل جاوید کے منہ کو چھو کر نکل گئی تو گولیاں تو یہاں ہی پوری ہوگئیں، زخمی تیرہ کیسے ہو گئے؟ یعنی صاف بات ہے کہ کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ جھوٹ ضرور ہے۔ مجھے ہیلتھ رپورٹرز ایسوسی ایشن کے صدر میاں محمد نوید نے عمران خان کے زخم کی تصویر دکھائی ہے اورفوجداری مقدمات کے ماہرایڈووکیٹ سپریم کورٹ سید فرہاد علی شاہ کے مطابق وہ گولی کا نشان ہی نہیں ہے۔ جھوٹ کی دکان یہاں تک کھولی گئی ہے کہ بابر اعوان نے کہہ دیا، عمران خان کو اے کے فورٹی سیون یعنی کلاشنکوف کی گولی لگی ہے جبکہ کلاشنکوف کی گولی گھستی چھوٹا سا سوراخ کر کے ہے مگر نکلتی سب کچھ پھاڑ کے ہے۔ سب سے غلط کام یہ ہوا کہ عمران خان نے نہ صرف قانونی میڈیکولیگل نہیں کروایا بلکہ پنجاب کی وزیر صحت سرکاری جناح ہسپتال کے عملے کو نوکریوں سے نکالنے کی دھمکی دے کر پرائیویٹ شوکت خانم ہسپتال لے گئیں اور غیر قانونی رپورٹ تیار کروا لی۔ یہ حکومتی غنڈہ گردی اور بدمعاشی کی انتہا ہے جس کے نتیجے میں عملی طور پر یہ کیس فارغ ہو چکا ہے۔ مسلم لیگ نون کے رہنما رانا تنویر نے دعویٰ کیا ہے کہ اس موقعے پر قتل ہونے والے معظم کو عمران خان کے گارڈز کی گولی لگی ہے۔
میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ عمران خان اور ان کے ساتھی اس کیس کی قانونی حیثیت کو کیوں خراب کر رہے ہیں کیونکہ وہ اسے صرف اور صرف اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرنا چاہتے ہیں جس طرح اس سے پہلے سانحہ ماڈل ٹاون کو کیا گیا اور بہت سارے عناصر نے اس کی ایک سیاسی ایف آئی آر درج کروائی جس پر آج تک سیاست کی جار ہی ہے۔ وہ تمام لوگ جو کم آئی کیو لیول رکھتے ہیں یا متعصب ہیں وہ ایک ہی دلیل دے رہے ہیں کہ مدعی کی درخواست پر مقدمہ درج ہونا چاہئے اورجب ان سے سوال کیا جاتا ہے کہ کیا اس صورت میں بھی درج ہونا چاہیے کہ اس کے کوئی شواہد اور ثبوت نہ ہوں اور وہ جھوٹ کاپلندہ ہو تو آئیں بائیں شائیں کرنے لگتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ تحقیقاتی اداروں کاکام ہے کہ وہ سچ کو تلاش کریں مگر وہ یہ کیوں نہیں کہتے کہ یہ ہر شہری کا کام ہے کہ وہ سچ بولے، جھوٹ سے پرہیز کرے اور اپنے اداروں کے لئے مشکلات پیدا نہ کرے۔ یہ شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کی خوش قسمتی ہے کہ عمران خان نے اس میں ایک تگڑے سرکاری افسر کا نام بھی شامل کر دیا جس کی وجہ سے تمام لوگوں کے ہاتھ پاوں پھول گئے ورنہ کسی بھی ایف آئی آر کے لئے سیاستدان بہت آسان اورمرغوب شکار ہیں۔ ان پربھینس چوری سے قتلوں تک کے مقدمات ہوتے رہے ہیں۔مجھے پولیس حکام سے کہنا ہے کہ اگر آپ اس ایف آئی آر میں سیاستدانوں کو شامل ہی کرنا چاہتے ہیں تو شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ خان کے ساتھ ان کو بھی کیجئے گا جو اس واردات کے ’پولیٹیکل بینیفیشریز‘ ہیں۔ ہم نے اب تک دس سے آٹھ، نو مقدمات میں یہی دیکھا ہے کہ آخر میں مجرم وہی نکلتے ہیں جو جرم کا فائدہ اٹھانے والے ہوتے ہیں، جو سب سے زیادہ شور مچا رہے ہوتے ہیں، تفتیش میں مدد کے نام پرپولیس کو گمراہ کر رہے ہوتے ہیں۔