اگر قیامت کے روز ہمارا سامنا اقبالؒ سے ہو گیا تو ایک اور قیامت ہوگی۔ وہ کہیں گے کہ میرے نام پر تم نے بہت کمائی کی۔ میرے نام کو خوب بیچا لیکن میرے کہنے پر عمل کتنا کیا؟ میں نے تو بچوں کو خوشامد پسندی کا دردناک عذاب سمجھانے کے لئے ”ایک مکڑا اور مکھی“ نظم لکھی لیکن تم تو بڑے ہوکر بھی بچوں سے چھوٹے نکلے اور خوشامد کے چکنے راستے پر پھسل کر خوشی سے لوٹ پوٹ ہونے لگے۔ اس کا انجام میں نے تمہیں بتا دیا تھا کہ:
مکھی نے سنی جب یہ خوشامد تو پسیجی
بولی کہ نہیں آپ سے مجھ کو کوئی کھٹکا
انکار کی عادت کو سمجھتی ہوں برا میں
سچ یہ ہے کہ دل توڑنا اچھا نہیں ہوتا
یہ بات کہی اور اڑی اپنی جگہ سے
پاس آئی تو مکڑے نے اچھل کر اسے پکڑا
بھوکا تھا کئی روز سے اب ہاتھ جو آئی
آرام سے گھر بیٹھ کے مکھی کو اڑایا
علامہ اقبالؒ کہیں گے کہ میں نے تمہیں اپنی نظم ”پہاڑ اور گلہری“ کے ذریعے بڑائی پر غرور کرنے سے منع کیا تھا اور کسی کو حقیر جان کر اُس سے حقارت نہ کرنے کا سبق دیا تھا لیکن تم باز نہ آئے اور چھوٹی اور کمزور شے سے بھی بے عزتی کرا بیٹھے۔
قدم اٹھانے کی طاقت نہیں ذرا تجھ میں
نری بڑائی ہے! خوبی ہے اور کیا تجھ میں
جو تُو بڑا ہے تو مجھ سا ہنر دکھا مجھ کو
یہ چھالیا ہی ذرا توڑ کر دکھا مجھ کو
علامہ اقبالؒ ہم سے پوچھیں گے کہ میں نے تمہیں کیا یہ نہیں بتایا تھا کہ مضبوط ارادے کو خدا کی مدد حاصل ہوتی ہے اور انسان اپنی تقدیر خود بنا سکتا ہے ورنہ:
تن بہ تقدیر ہے آج ان کے عمل کا انداز
تھی نہاں جن کے ارادوں میں خدا کی تقدیر
تھا جو ناخوب، بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
علامہ اقبالؒ ہماری طرف انگلی کا اشارہ کرکے کہیں گے کہ میں نے تمہیں وہ راز بھی بتائے تھے جن سے اقوامِ عالم میں معراج حاصل کرسکتے ہو۔ کیا تم نے میرے یہ اشعار نہیں پڑھے تھے؟
دے ولولہ شوق جسے لذتِ پرواز
کرسکتا ہے وہ ذرہ مہ و مہر کو تاراج!
ناوک ہے مسلماں! ہدف اس کا ہے ثریا
ہے سرِّ سرا پردہ جاں نکتہ معراج
علامہ اقبالؒ ہمارے قریب آکر سرگوشی میں کہیں گے کہ تم سب مال و زر کے پیچھے پڑگئے حالانکہ میں نے تمہیں واضح بتایا تھا کہ دنیا میں صرف مال و زر سے عزت نہیں بڑھتی۔
اگرچہ زر بھی جہاں میں ہے قاضی الحاجات
جو فقر سے ہے میسر تونگری سے نہیں!
اگر جواں ہوں مری قوم کے جسورو غیور
قلندری مری کچھ کم سکندری سے نہیں!
ہم قیامت کے روز علامہ اقبالؒ کے سامنے شرمندہ کھڑے ہوں گے اور وہ چپ چاپ وہاں سے چلے جائیں گے۔ ہم سوچنے لگیں گے کہ دنیا میں کہا جاتا تھا اقبالؒ ایک تحریک کا نام ہے، وہ ہردور میں زندہ رہیں گے۔ یہ سچ تھا کیونکہ اقبالؒ نے تقریباً سوبرس پہلے ہی کرپشن مقدمات کا فیصلہ ”اسرارِ خودی“ میں یوں سنا دیا تھا:
آتش جان گدا جوع گداست
جوع سلطان ملک و ملت را فناست
یعنی ”گدا کی بھوک صرف اس کی جان کھا لیتی ہے جبکہ سلطان کی بھوک تو ملک و ملت کھا جاتی ہے“۔