علامہ محمد اقبالؒ نے علم الا قتصاد کی شکل میں بلا سود معاشی خوشحالی کا چارٹر پیش کیا۔ آج پاکستان کا بچہ اور بڑا 2 لاکھ اور 50 ہزار کا مقروض ہے, پالیسی شرح سود 15 فیصد بلند سطح پر ہے جس کی وجہ سے افراط زر 26.6 فیصد جو پچھلے سال کی بلند سطح پر پہنچ گئی ہے، اس بحران سے نکلنے کا سود سے پاک معاشی نظام کا راستہ علامہ محمد اقبالؒ نے خوبصورت انداز میں "علم الاقتصاد" میں پیش کیا۔ اْنھوں نے سودی معیشت کا مشاہدہ کرتے ہوئے مسلمانوں کی پس ماندگی کا بغور جائزہ لیا اور مسلمانوں کی معاشی حالت بہتر بنانے کے لیے تجاویز مرتب کیں۔ اْنھوں نے اپنے معاشی خیالات کو اپنی کتاب '' علم الاقتصاد'' کی زینت بنایا۔ علامہ محمد اقبالؒ کے سامنے ایک مربوط معاشی نظام تھا۔ ''علم الاقتصاد '' اپنے دور کا ایک ایسا آئینہ ثابت ہوا جس میں مسلمانوں کو معاشی طور پر اْبھرنے کا خاکہ نظر آنے لگا۔ ''علم الاقتصاد ''1903ء میں مکمل ہوگئی۔ مختلف اداروں نے ''علم الاقتصاد'' شائع کر کے علامہ اقبالؒ کے معاشی افکار عوام الناس تک پہنچانے کا اہتمام کیا۔ کتاب کا دیباچہ علامہ محمد اقبالؒ نے تحریر کیا۔ اس کے ابواب کی تقسیم یوں ہے۔
حصہ اول: علم الاقتصاد (علم الاقتصاد کی ماہیت اور اس کا طریق تحقیق)، حصہ دوم: پیدائش دولت (زمین۔ محنت۔ سرمایہ۔ کسی قوم کی قابلیت پیدائش دولت کے لحاظ سے)، حصہ سوم: تبادلہ دولت (مسئلہ قدر۔تجارت بین الاقوام۔ زر نقد کی ماہیت اور اس کی قدر۔ حق الضرب۔زر کاغذی۔ اعتبار اور اس کی ماہیت)، حصہ چہارم: یداوار دولت کے حصہ دار (لگان۔ سود۔ منافع۔ اجرت۔ مقابلہ نامکمل کا اثر دستکاروں کی حالت پر۔ مال گزاری)، حصہ پنجم: آبادی وجہ معیشت (جدید ضروریات کا پیدا ہونا، صرف دولت)، ضمیمہ۔ اصطلاحات۔
معاشی آسودگی خوش حال زندگی کی علامت ہے۔ علم الاقتصاد، سے ہی ہم معاشی ترقی کے گراف کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ علامہ محمد اقبالؒ شعر و سخن کے علاوہ معاشیات سے بھی گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ نومبر 1940کے مخزن میں یہ خبر شائع ہوئی۔ اقبال نے قومی تعلیم کو معاشی ترقی اور ملکی پیداوار کی افزائش کا لازمی وسیلہ قرار دیا ہے اور یہ وہ نکتہ ہے جو اکثر
ماہرین اقتصادیات کی نگاہوں سے اوجھل رہا ہے۔ ذاتی طور پر مجھے اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ تعلیم اور اقتصادی ترقی لازم و ملزوم ہیں اور جب تک کسی ملک میں قومی تعلیم پورے طور پر عام نہ ہو وہ ملک اقتصادی ترقی نہیں کر سکتا'' نابغہ روزگار علامہ محمد اقبالؒ نے علم الا قتصاد کے دیباچہ میں فکر انگیز نکتہ پیش کیا ہے۔ '' علم الا قتصاد انسانی زندگی کے معمولات کاروبار پر بحث کرتا ہے پس ایک اعتبار سے تو اس کا موضوع دولت ہے اور دوسرے اعتبار سے یہ اس وسیع علم کی ایک شاخ ہے جس کا موضوع خود انسان ہے۔ دانائے راز اقبالؒ نے تصور ِحیات کا اہم پہلو ہمارے اذہان میں منتقل کیا کہ خالق کائنات تمام خزانوں کا مالک ہے۔ اْس کے حکم کے بغیر ایک پتہ بھی نہیں ہل سکتا اور اہم بات تو یہ ہے کہ انسان اللہ کا نائب اور خلیفہ ہونے کی وجہ سے تمام خزانوں کا امین بھی ہے۔ اقبال کے نزدیک یہ بنیاد ی نکتہ ہے جس سے نظامِ معیشت کی عظیم الشان تعمیر ہوئی۔ غربت اور پسماندگی دور کرنے کے اقدامات کی رہنمائی کی۔ زمین کی وسعتوں پر بے کار حصوں کی آباد کاری کرنے کا مشورہ دیا۔ محنت کے بل بوتے پر، ثمرات اگانے والوں کا حصہ بھی مخصوص کرنے کی ہدایت دی۔ اقبال کے نزدیک عشر اور زکوٰۃ کے بہتر نظام کی وجہ سے غریبوں کی حوصلہ افزائی اور دولت مندوں کو سرنگوں کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ بے روزگاری کسی بھی معاشرے کے لیے سمِ قاتل ثابت ہوتی ہے۔
اقبالؒ کا جدید معاشی تصور آج بھی ہمارے لیے باعث رہنمائی ہے۔ نظریات، چارٹر یا قوانین بنانا بہت آسان ہے لیکن ان پر عمل کرنا اور کرانا بہت مشکل ہے۔ بجلی، پیٹرولیم منصوعات، معدنیات اور گیس کی فراوانی سے پاکستان کے تمام شعبہ جات کو مستحکم بنایا جا سکتا ہے۔ علامہ محمد اقبالؒ نے سود سے پاک معاشی نظام کے اصول 1903 ء سے پہلے ہمارے لیے مرحمت فرمائے تھے۔ آج معیشت، تہذیب و تمدن اور سماج کے دیگر شعبوں میں آمد و خرچ کا توازن برقرار نہیں ہے۔ علامہ محمد اقبالؒ کے اصولوں کے مطابق عصر حاضر میں بھی سود سے پاک ایک مربوط معاشی نظام قائم کیا جا سکتا ہے۔ سوشلزم اور کیمونزم کی طرف داری کرنے والے بھی آج اسلام کے معاشی نظام کے معترف ہورہے ہیں۔ علامہ اقبالؒ اشتراکیت کے حامی نہ تھے۔وہ سودی معیشت، دولت جمع کرنے، جاگیر داری، سرمایہ داری اور استحصال کے خلاف تھے۔
محنت اور سرمایہ ایک ایسی ثلیث (تکون) ہے جس سے پیداوار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ بے کار زمینوں کو محنت کے بل بوتے، کاشت کے قابل بنا کر ہم قومی سرمائے میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ کسان کی خوش حالی ملک کی ترقی سے وابستہ ہے۔ ہمارے ہاں آئے روز حکومت اور کسانوں کے مابین رسہ کشی جاری رہتی ہے اسے توازن میں لانا آج کی اہم ضرورت ہے۔ وہ سرمایہ دار جو مزدور کی اجرت ادا نہیں کرتے ان کا احتساب کرنا معاشی نظام کی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔ ہمارے معاشی نظام میں جس چیز کی کمی ایک عرصہ سے محسوس کی جا رہی ہے وہ فرائض کی ادائیگی میں سستی ہے۔ ایوانوں سے مکانوں تک پوچھ گچھ کرنے کے عمل کو تیز تر ہونا چاہیے۔ وہ شعبہ جات جو مستقل خسارے میں ہیں انھیں دوسرے شعبہ جات میں ضم کر کے تنخواہوں کا بوجھ ہلکا کیا جا سکتا ہے۔ ریونیو میں اضافے کے لیے بین الاقوامی تجارت کا فروغ بہت ضروری ہے۔ ٹیکسوں کی جمع تفریق کا احتساب کڑے سے کڑا ہونا چاہیے۔ لگان، سود، منافع، اجرت اور مال گزاری سب دولت کی پیدا وار کے حصے دار ہیں۔ سودی نظام نے مشرقی معیشت کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔
اگر اسلامی زاویہ نظر کے مطابق سود کو ختم کرنا ہے تو شراکت داری کو فروغ دیا جائے۔ سود کے علاوہ لاٹری سسٹم، پرائز بانڈ، منافع بخش سرٹیفکیٹ، جوا، سٹہ، سٹاک ایکسچینج اور رعایتی ٹوکن امیروں کو امیر تر کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی معیشت تین حصوں میں منقسم ہے۔ سرمایہ دار طبقہ، سفید پوش اور غریب لوگ کسان کی محنت سے سرمایہ دار منافع حاصل کرتا ہے۔ مزدور کے خون پسینے کی کمائی سے تاجر حضرات کروڑ پتی بن رہے ہیں۔ اقبال کے نزدیک خوشحالی کا دارو مدار خلوص، ایمانداری، محنت اور مساوات میں مضمر ہے۔ اسلام کے معاشی نظام کے ہوتے ہوئے ہمیں کسی دوسرے نظام کی ضرورت نہیں ہے لیکن یہ سب کچھ منظم کرنے کے لیے کڑا احتساب کون کرے گا۔ ذخیرہ اندوز وں اور بھاری نفع حاصل کرنے والے کارخانہ دار بے لگام ہو رہے ہیں۔ اقبال نے اشیاء کے باہمی تبادلے کی ضرورت بھی محسوس کی ہے۔ ایک خاص معین مقدار دوسری شے کی ایک خاص معین مقدار کے عوض حاصل کی جا سکتی ہے۔