واشنگٹن: عالمی بینک نے افغانستان کی امداد کی بحالی کے امکان کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ تباہ حال معیشت میں کام کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ورلڈ بینک کے چیف ڈیوڈ مالپاس نے سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز سے خطاب میں کہا کہ اگست میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے افغانستان کی مالی امداد روک دی گئی تھی جس کی فوری بحالی کا کوئی امکان نہیں ہے۔
سربراہ عالمی بینک نے مزید کہا کہ امداد کی بحالی میں سب سے بڑی رکاوٹ غیر یقینی صورت حال، انتہائی خراب معیشت اور ادائیگیوں کا مؤثر نظام نہ ہونا ہے اور اس کے سدباب کے لیے افغانستان کی موجودہ حکومت کے اقدامات ناکافی ثابت ہو رہے ہیں۔ تاحال افغانستان میں طالبان حکومت کو کسی نے بھی قبول نہیں کیا ہے جبکہ امداد کی بحالی اور منجمد فنڈز جاری کرنے میں یہ بھی ایک رکاوٹ ہے تاہم امریکا سمیت عالمی قوتوں نے جنگ ے زخم خوردہ عوام کے لیے براہ راست مالی امداد جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
امریکا سمیت عالمی قوتوں نے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے مؤقف اختیار کیا ہے کہ حکومت میں خواتین سمیت تمام قومیتوں اور طبقات کی شمولیت اور بچیوں کی تعلیم کی اجازت جیسے اقدامات کی صورت میں ہی طالبان حکومت کو تسلیم کیا جا سکتا ہے۔
عالمی بینک کی ویب سائٹ کے مطابق افغانستان میں اس وقت 2 درجن سے زائد ترقیاتی منصوبے جاری ہیں جن کے لیے 2002 سے اب تک 5.3 ارب ڈالر فراہم کر چکا ہے۔ تاہم اب ترقیاتی امداد سمیت 9 بلین ڈالر کے ذخائر تک طالبان حکومت کی رسائی کو روک دیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ طالبان حکومت متعدد بار افغانستان کے غیر ملکی بینکوں میں منجمد اثاثوں کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ اگر ہمیں ہماری رقوم مل جائیں تو کسی اور امداد کی ضرورت نہیں رہے گی۔