لاہور: قومی شاعر ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا 144واں یوم پیدائش آج ملک بھر میں انتہائی جوش وجذبے کے ساتھ منایا جا رہا ہے ۔
دن کا آغاز پاکستان کی ترقی وخوشحالی کیلئے مساجد میں خصوصی دعاؤں کے ساتھ کیا گیا ۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال 9 نومبر 1877ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ۔ انہوں نے دل کو چھولینے والی اپنی آفاقی شاعری کے ذریعے مسلمانوں کو بیدار کیا اور 1930ء میں آلہ آباد میں اپنے تاریخی خطبے کے ذریعے قیام پاکستان کے تصور کو پیش کرتے ہوئے ان میں سیاسی شعور پیدا کیا ۔ علامہ اقبال کے خطبہ آلہ آباد نے حصول پاکستان کیلئے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک واضع سمت اور علیحدہ شناخت دی ۔
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوق یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجریں
ادھر ، پاک بحریہ کے چاق و چوبند دستے نے قومی شاعر کو سلامی پیش کرتے ہوئے ، اعزازی گارڈز کی ذمہ داریاں سنبھال لیں ۔ پاک بحریہ کے اسٹیشن کمانڈر لاہور کموڈور عامر اقبال خان نے مزار اقبال پر پھول رکھے اور فاتحہ پڑھی ۔ کموڈور عامر اقبال خان نے مہمانوں کی کتاب میں تاثرات بھی قلمبند کیے ۔
حکیم الامت، شاعرِ مشرق حضرت اقبالؒ کی شخصیت، شاعری اور فکر و فلسفے کے بارے میں کچھ کہنا ایسے ہے جیسے سورج کو چراغ دکھانا اس لئے کہ اس بارے میں اتنا کچھ لکھا گیا ہے اور اتنا کچھ لکھا جاتا رہے گا کہ اس کو نقد و نظر میں پرکھنا شاید کسی کے بس کی بات نہ ہو۔ اقبال بلا شبہ حکیم الامت تھے، فلسفی تھے، شاعر تھے، دانائے راز تھے اُن کی شاعری اپنے ظاہری حسن کے لحاظ سے ہی بے مثال نہیں بلکہ باطنی حسن اور معنی اور مطالب کے لحاظ سے بھی بے مثال ہے۔ اس میں جو خوبصورت تراکیب استعمال ہوئی ہیں، اس میں الفاظ کی جو بندش ہے، معنی کی جو وسعت ہے، تاریخ اور تہذیب کا جو شعور ہے، خودی کی جو ترجمانی ہے، فکر و فلسفے کی جو گہرائی ہے، عقل و شعور کی جو فرمانروائی ہے، خیالات کی جو بلندی ہے، عشق حقیقی اور عشقِ رسولﷺ کی جو خوشبو ہے، قومِ رسولِ ہاشمی اور تہذیب حجازی کا جو تذکرہ ہے، ماضی کی جو منظر کشی ہے، حال کی جو اُمید افزائی ہے اور مستقبل کے جو سہانے خواب ہیں وہ سب کچھ اتنا عدیم النظیر ہے کہ اس کی اور کہیں مثال نہیں ملتی۔ اقبالؒ کی ہستی ملتِ اسلامیہ بالخصوص برصغیر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے لیے اللہ کریم کا احسانِ عظیم تھا۔
اقبالؒ کے اردو مجموعہ ہائے کلام بانگِ درا، بالِ جبریل اور ضرب ِ کلیم میں کتنی ہی ایسی نظمیں اور اشعار موجود ہیں جن سے اقبال کے فکر و فلسفے، ملتِ اسلامیہ کے لیے فکرمندی اور دردمندی کے ساتھ اُمید افزائی اور سب سے بڑھ کر ہادی برحق حضرت محمدﷺ سے ان کی سچی محبت اور عشق کا واضح اظہار ہوتا ہے۔