آج یوم اقبال پر کچھ ’’اقوال زریں‘‘ بلکہ کچھ ’’اقبال زریں‘‘ پیش خدمت ہیں، …مجھے پتہ ہے اس پر عمل تو ہم نے کرنا نہیں مگر دوسروں کو بتانا ضروری ہے ہمارے مشاہیر، ہمارے اصل ہیروکن خوبصورت خیالات کے مالک تھے، ہم نے تو رسول ؐ کے اقوال کو نہیں اپنایا اقبال کے اقوال کو کیا اپنائیں گے؟،اقبالؒ نے جس پاکستان کا خواب دیکھا تھا آج محسوس ہوتا ہے واقعی ’’خواب‘‘ ہی دیکھا تھا، یہ بڑی دردناک کہانی ہے ، آج کا پاکستان دیکھ کر اس درد میں کئی گنااضافہ ہوگیا ہے، چلیں آج اس دردکو تھوڑا کم کرتے ہیں، آج دیکھتے ہیں اقبال ؒ کہتاکیا تھا ؟؟
٭قومیں فکر سے محروم ہوکر تباہ ہوجاتی ہیں …
٭عقل سے کائنات کو مسخر کرسکتے ہیں لیکن لامکان کی تسخیر کے لیے عشق درکا ہے…
٭اگر آدمیت مطلوب ہے یعنی اگر آدمی بننا چاہتے ہو تو بنی آدم کا احترام کرو…
٭دل ایک ایسی چیز ہے جو ہرامیر کے پہلومیں نہیں ہوتا…
٭عاشق پر موت حرام ہے…
٭جو مسائل انسان حل نہیں کرسکتے اُنہیں قدرت حل کرتی ہے…
٭ترک اُمید مرگ جاوداں ہے…
٭بہترین نتائج کی خواہش، معمولی نتائج کی توقع اور بدترین نتائج کے لیے تیار رہنا چاہیے…
٭ہزار کتب خانہ ایک طرف اور باپ کی نگاہ ملشفت ایک طرف …
٭مصیبت کی طرح گمراہی بھی تنہا نہیں آتی…
٭دوسروں کے سہارے زندگی بسرکرنا قرآن کی رُو سے کافری ہے …
٭مشرقی اقوام کو مغربی تہذیب پر تنقید کی ضرورت ہے تقلید کی ضرورت نہیں …
٭تجربے سے معلوم ہوا لوگ اخلاص اور دیانت کے بہت دشمن ہیں …
٭زندگی کے جس بھی شعبے میں تقلید کا عنصر نمایاں ہوگا اُس میں حرکت مقصود ہوگی…
٭تجربے سے معلوم ہوا لوگ اخلاص اور دیانت کے بہت دشمن ہیں …
٭زندگی کے جس بھی شعبے میں تقلید کا عنصر نمایاں ہوگا اُس میں حرکت مقصود ہوگی…
٭کلام اللہ کی محض تلاوت ہی نہیں بلکہ کلام اللہ کو سمجھنا بھی ضروری ہے…
٭صرف کلام اللہ ہی مسلمان کے لیے باعث نجات ہے…
٭مصائب بھی ایک طرح سے عطیہ ٔ خداوندی ہیں تاکہ انسان اپنی اصلاح کرے …
٭مادہ اور روح دونوں کے امتزاج کا نام حقیقت ہے …
٭کردار اور صحت مند تخیل میسر آجائے تو اِس گناہ اور دُکھ بھری دنیا کی ایسی تعمیر نو ممکن ہے کہ ایک حقیقی جنت بن سکتی ہے…
٭زندگی میں کامیابی کا انحصار عزم پر ہے نہ کہ عقل پر…
٭اپنی حدود کو پہچانیے اور اپنی صلاحیتوں کو پرکھیے پھر زندگی میں آپ کی کامیابی یقینی ہے …
٭قوی انسان ماحول تخلیق کرتا ہے …
٭کمزوروں کو ماحول کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنا پڑتا ہے …
٭یقین سے بڑھ کر قوت اور کوئی ہو نہیں سکتی …
٭علم کی ابتداء ’’محسوس‘‘ سے ہوتی ہے …
٭اگر آپ چاہتے ہیں کہ دنیا کے شوروغوغا میں آپ کی آواز سنی جائے تو آپ کی روح پر محض ایک ہی خیال کا غلبہ ہونا چاہیے …
٭مقصد واحد کی لگن والا انسان ہی سیاسی و معاشرتی انقلابات پیدا کرتا ہے، سلطنتیں قائم کرتا ہے اور دنیا کو آئین عطا کرتا ہے …
٭میں اپنے شب وروز اور مال و سال کی قدروقیمت ان تجربات کے لحاظ سے جانچتا ہوں جو وہ مجھے بخشتے ہیں، اور بعض اوقات میں یہ دیکھ کر حیران ہو جاتا ہوں کہ ایک آن واحد پورے ایک سال سے زیادہ گراں قدر ہے …
٭سوچنے والے زندہ انسان کے خیالات میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں جبکہ پتھر ساکن رہتا ہے …
٭ضبط نفس افراد میں ہو تو اس سے خاندانوں کی تعمیر ہوتی ہے اور اگر اقوام میں ہوتو سلطنتیں قائم ہوتی ہیں …
٭مخالف کو بھی نرم خوئی سے سمجھائو، دلوں کی فطرت یہ ہے اِسے محبت سے رام کیا جاسکتا ہے …
٭انصاف ایک بیش بہا خزانہ ہے لیکن اِس کو رحم سے دور ہی رکھنا چاہیے …
٭یقین محکم ایک لازوال طاقت ہے …
٭پہلے وقتوں میں تعلیم کم تھی اور علم زیادہ، آج کل علم کم ہے اور تعلیم زیادہ …
٭نور ایمان کسب حلال سے ہی پیدا ہوتا ہے …
٭فقر کی پہلی منزل کسب حلال ہے …
٭مہمان نوازی پیغمبروں کا خاصہ ہے …
٭اسلام میں توکل اور تقویٰ معیار شرافت سے ہے نہ کہ حسب و نسب سے …
٭کام میری نظر میں عبادت ہی کی طرح ہوتا ہے …
٭یہ خیال غلط ہے کہ اچھے کاموں کا اجر آئندہ زندگی میں ملے گا، اچھے عمل تو کبھی ضائع نہیں ہوتے …
٭صبر مسلمانوں کے لیے بہت بڑی سعادت ہے …
٭ہرمعاملے میں اللہ پر بھروسہ کرنا ہی مسلمانی ہے …
٭ایک قابل اُستاد ایک سورج کی مانند ہوتا ہے جو اپنی روشنی و حرارت ہرجگہ پہنچاتا ہے …
٭مخالف طاقتوں سے گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ جدوجہد میں تیزی پیدا کرنی چاہیے، یہی زندگی ہے …
٭جو شخص اپنی عظمتوں کے گُن گاتا رہے وہ ہرگز عظیم نہیں ہوسکتا…
٭عقل ایک حدسے نہیں بڑھ سکتی جبکہ عشق کی کوئی حد نہیں ہوتی…
٭زمانہ کسی کا انتظار نہیں کرتا، جو لوگ اپنا وقت بے علمی میں کھودیتے ہیں وہ اپنی ذلت ورسوائی کے ساتھ اپنی ہراچھائی بھی کھودیتے ہیں …
٭زندگی اصل میںموت کی ابتداء اور موت زندگی کا آغاز ہے …
٭مومن کو چاہیے وہ دنیا میں محنت ومشقت میں زندگی گزارے …
٭قطرہ دریا کے باہر ہے، جب قطر ہ دریا میں مِل جائے تو دریا ہے …
٭مسلمانوں کا ایک قوم بن کر رہنا ضروری ہے کیونکہ قوم سے جدائی افراد کی اہمیت ختم کردیتی ہے …
٭ہرانسان ادنی پیمانے پر خود خالق ہے اور ان تخلیقی قوتوں کو ضائع کرنا گناہ ہے …