ٹی ایل پی کے کالعدم کے لیبل سے نکلنے کے بعد 78 تنظیمیں اور جماعتیں باقی رہ گئی ہیں، اللہ کرے وہ بھی آئینی دائرے اور قوانین پر پابندی کی ضمانتیں دے کر قومی دھارے میں داخل ہو جائیں۔ ویسے تو کسی بھی تنظیم کے رجسٹر کرنے سے پہلے اس کے نام، خدوخال اغراض و مقاصد اور افراد، علاقائی، نفسیاتی تجزیہ اور سرکردہ افراد پر مفاد عامہ میں مکمل پڑتال نہیں تو کم از کم ایک نظر مار لینی چاہیے تاکہ دوبارہ سہ بارہ اور متعدد بار مفاد عامہ کو زحمت نہ دی جائے۔
حکومت کے اکابرین جو اس قابل تو نہیں کہ کالم میں ان کا ذکر بھی کیا جائے مگر کیا کریں حکومت کے نمائندے ہیں۔ شہباز گل فرماتے ہیں ’’دنیا میں پٹرول 130 فیصد جبکہ پاکستان میں صرف 33فیصد مہنگا ہوا‘‘۔ عمران خان سمیت جتنے بھی لوگ عذرات اور تاویلیں پیش کرتے ہیں وہ سیاسی سکورنگ کے لیے یا لاحاصل بحث کے لیے تو کام آ سکتی ہیں مگر قاعدے کلیے کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ پٹرول کے ساتھ ران۔92 (Ron-92) استعمال ہوتا ہے جس کی قیمت 33روپے فی لیٹر کم ہے، اس مد میں سالانہ 600 ارب روپے کا کوئی حساب کتاب نہیں۔ دنیا بھر میں معاشی موازنے کے جو طریقے ہیں ان میں بنیادی طور افراط زر کی حیثیت ہے۔
دنیا کے افراط زر کے ریٹ کا اپنے ریٹ سے موازنہ کیا جائے ابھی دو ہفتے پہلے 44 ممالک کے افراط زر کا ریٹ موازنہ کیا گیا جن میں وطن عزیز چوتھے نمبر پر تھا جبکہ ساؤتھ ایشیا میں ہم نمبر ون پر ہیں سب سے کم مالدیپ جس کا ریٹ 1 فیصد، بنگلہ دیش 4.5 اور بھارت 5.5 جبکہ ہمارا 9 فیصد ہے اور پھر تیسرا طریقہ یا پیمانہ اپنے ملک کی تاریخ سے موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ آپ 70 سال سے موازنہ کر لیں ان تین سال کا موازنہ 70 سال کی تاریخ میں نہیں ملے گا چاہے وہ جنگوں کے زمانے ہوں یا ملک ٹوٹنے کا سانحہ، موجودہ حکومت کے تین سال 70 سال پر موازنے میں بازی لے گئے۔ بجلی، دوائیاں، اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں ناقابل یقین حد تک اضافہ، افراط زر میں اضافہ اپنی مثال آپ ہے۔ یہ یاد رہے کہ وطن عزیز میں سب سے بُرے حالات میں حکومت گریٹ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد جناب آصف علی زرداری کو ملی تھی اور سب سے اچھے حالات میں حکومت موجودہ حکومتی اتحاد کو ملی تھی جبکہ کرونا وائرس نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اور حکومت نے کرونا وائرس سے پہلے ہی ملکی معیشت کا بیڑا غرق کر دیا تھا۔ کرونا وائرس تو حکومت کے لیے نفع بخش عذر بن کر آیا۔ حکومت کی ترجیحات میں مخالفین سے انتقام، تہمت، الزام اور میرٹ کے برعکس تعیناتیاں رہیں۔
پارلیمانی نظام کے تحت حکومت بنانے والوں نے ایک دن بھی پارلیمانی طریقہ کار کے مطابق نہ گزارا۔ قانون سازی کے لیے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اتنے آرڈیننس جاری نہیں کرتا جتنے موجودہ سول حکومت نے جاری کیے۔
نعرے بازی، اعلانات، دعوے عذرات اور تقاریر کی ان تین سال میں بہتات رہی۔ عذرات کے سلسلے میں سابقہ حکومتوں، حکمرانوں، نوازشریف اور آصف علی زرداری کے بعد آئی ایم ایف آ گئے۔ اپوزیشن سے ہاتھ ملانا گناہ سمجھا گیا جیسے حکومتی بنچوں پر نفلی روزے رکھنے والے متقی پرہیزگار، رات کو ساری دولت بانٹ کر سونے والے موجود ہیں،جبکہ حقیقت میں ان کا کردار کالم تو کیا قلم کو بھی نجس کر دے۔
چینی اور پٹرول کے پس منظر کے اتار چڑھاؤ میں کوئی زیادہ فرق نہیں، چینی 35 سے 71، 110 اور اب 150روپے کلو، پھر ایکسپورٹ، پھر 71 ارب سبسڈی پھر مہنگے ڈالر میں امپورٹ۔ وزیراعظم نے جو حالیہ پیکیج دیا اس میں ریلیف یومیہ پانچ روپے بنتا ہے جو نوٹ بھی نہیں رہا اور سکہ فقیر بھی نہیں لیتا۔ 7 کروڑ غربت کی لکیر سے نیچے بسنے والے 2018 ء میں لوگ اب وزیر اعظم کے مطابق 13 کروڑ لوگ مدد کے مستحق ہیں، جو احساس پروگرام کے مستحق قرار پائے۔ دوسری جانب پاکستان کے اوسطاً شہری کی آمدن 17 ہزار روپے ماہانہ ہے۔ اس میں اس جان لیوا مہنگائی میں کوئی خاندان کیسے گزارا کر سکتا ہے؟ وہ زندہ رہنے کے لیے بدن کو درکار 2000کیلری پوری کرے گا یا 22 روپے سے زیادہ فی یونٹ بجلی کا بل دے گا؟
دراصل حکومت کی ترجیحات صرف حکومت کرنا، آئندہ پانچ سال اقتدار میں رہنا، قوم کو منتشر رکھنا، نفرت کی بنیاد پر اپنے آپ کو مقبول بنائے رکھنا ہے۔ کوئی معاشی پالیسی تھی نہ ہے اور نہ کوئی معاشی ٹیم۔ یہ پناہ گاہیں اور اس نوع کے ڈرامے فوٹو سیشن کے لیے تو بہت اچھے ہیں مگر ان کا صفر فیصد بھی مثبت اثر نہیں ہوتا۔ ادارہ جاتی حکومت، مگر نظام کا انہدام ہم نے بیک وقت پہلی بار دیکھا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ کوئی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔ ایک صاحب دور کی کوڑی لائے کہ پہلی بار مہنگائی گریٹ بھٹو کے دور میں ہوئی تھی اس کو علم نہیں کہ ایوب خان کی کھٹیا چینی 4 آنے مہنگی ہونے سے کھڑی ہو گئی تھی۔ امریکہ اپنی معاشی تاریخ میں کئی بار بحرانوں کا شکار ہوا۔ ایک بار تب جب صرف ریڈیو تھا۔ امریکی صدر نے 5 منٹ تقریر کی ، لوگ سمجھے ٹیکس بڑھ جائیں گے مگر صدر نے اعلان کیا کہ میں ہر قسم کا ٹیکس آدھا کرتا ہوں مگر درخواست کرتا ہوں کہ امریکی خریداری تیز کر دیں۔ تاریخ گواہ ہے اسی رات امریکی معیشت پاؤں پر کھڑی ہو گئی۔ ہمارے وزیراعظم ڈراتے ہیں کہ ابھی اور مہنگائی ہو گی، گھبرانا نہیں۔
مقصد یہ ہے کہ حکومت صرف ٹوئٹر، سوشل میڈیا اور یوٹیوب پر ہے اور اپوزیشن کا وتیرہ بھی یہی رہ گیا ہے۔ لوگ یوٹیوب، ٹوئٹر، فیس بک، واٹس ایپ پر غصہ نکال لیتے ہیں مگر سڑکوں پر تاحال نہیں آئے مگر وہ وقت اب بالکل سر پر ہے کہ لوگ سڑکوں پر آئیں گے اور حکومت کے گھر جانے تک واپس اپنے گھروں کو نہیں لوٹیں گے۔
جغرافیہ تو سی ایس ایس والوں کا بھی کمزور ہوتا ہے مگر موجودہ حکومت لوگوں کو تاریخ بھی غلط بیان کر کے گمراہ کر رہی ہے۔ وزیر اعظم نے ریلیف دیا اور اگلے دن پٹرول جس کی کبھی سمری کے سفر کی بھی کمنٹری ہوا کرتی تھی اس کی ضرورت پیش نہ آئی اور رات کے پچھلے پہر گھات لگا کر پٹرول کی قیمت بڑھا دی گئی۔ شائد حکومت کو پہلے بٹ پھر جٹ کے بعد سمری فوبیا ہو گیا ہے ایک دو تعیناتیوں کی سمریوں نے حکومت کو ایسا ہلا کر رکھ دیا کہ اب پٹرول کی سمری کو بھی انہی سمریوں کا سلسلہ سمجھنے لگی ہے۔ حکومت کے کارندوں اور ’’نیک و کار‘‘ لوگوں سے التماس ہے کہ عوام کے ساتھ جو ہونا ہے سو ہونا ہے کم از کم لوگوں کو گمراہ تو نہ کریں۔ حضرت بلالؓ کی دعا تھی کہ ’’ اے اللہ کاش ظالم اپنے آپ کو مظلوم کے بدن میں محسوس کرے‘‘۔ یہی دعا آج ہے کہ اے اللہ کاش حکمران اپنے آپ کو عوام کے بدن میں محسوس کریں۔
گمراہ تو نہ کریں
07:24 AM, 9 Nov, 2021