کوئٹہ: صوبہ بلوچستان کے شہر کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے نوجوان کرکٹر محمد جنید کو کوئٹہ کی نمائندگی کرنے کا شاندار موقع ملا ہے .اور ان کا یہ موقع ان کی ان تھک محنت اور بزرگوں اور چاہنے والوں کی دعاؤں کے نتیجے میں ملا ہے ،محمعد جنید نے اپنے پہلے انٹرویو میں کیا کہا ان کی زندگی کی نشیب وفراز کے بارے میںجانتے ہیں . کرکٹرمحمد جنید کا تعلق صوبہ بلوچستان کے شہر کوئٹہ سے ہے۔جنید 21 مئی 2002 کو کوئٹہ شہر میں پیدا ہوئے. جنید کو کرکٹ کھیلنے کا شوق شروع سے ہی تھا اور وہ کرکٹ بطور مشغلہ کوئٹہ کی گلیوں میں کھیلتے رہے۔لیکن جنید کے بڑے بھائی جمیل احمد نے ان کے اندر کے کرکٹر کو پہچانا اور وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے سوچا کہ جنید کوکرکٹ بطور پروفیشن شروع کرنا چاہیے ، محمد جنید کا کہنا ہے کہ ان کے بڑے بھائی سے انہوں نے نجی زندگی کے علاوہ کھیل کے میدان میں بہت کچھ سیکھا اور وہ اب تک کرکٹ اور نجی زندگی میں بھی وہ جنید کی رہنمائی کرتے رہتے .
جنید کو پہلا موقع نظامی کرکٹ کلب کوئٹہ کی طرف سے دیا گیا جس کا کریڈٹ وہ اپنے کوچز نظامی صاحب، اکرم بلوچ،اسلم شیخ اور راج ہنس کو دیتے ہیں نظامی کرکٹ کلب سے کرکٹ کھیلنے کے بعد کوئٹہ کے مشہور کرکٹ کلب " مار کر" کے ساتھ منسلک ہوگئے. جہاں نے مزید بہترین مواقع فراہم کئے گئے۔اسی سال جنید نے انڈر 16 کے ٹرائل دیئے جس میں ان کا نام پاکستان بھر کے 25 بہترین کھلاڑیوں میں شامل کرلیا گیا اور ان کھلاڑیوں کو نیشنل کرکٹ اکیڈمی مدعو کر لیا گیا تاہم جنید آخری 15 کھلاڑیوں میں جگہ بنانے میں ناکام رہے لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری اور دوبارہ مارکر کرکٹ کلب میں نئے جذبے کے ساتھ کرکٹ کا آغاز کیا.
انڈر 16 سے ڈراپ ہونے کے بعد محمد جنیدکے بڑے بھائی نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے رہے جس کو مدنظر رکھتے ہوئے محمد جنید نے ہمت نہ ہاری اور اپنی محنت کو جاری رکھا۔جنید کا کہنا ہے کہ وہ محنت پر یقین رکھتے ہیں اور ان کا کہناہے کہ بھارتی کرکٹر ویرات کوہلی کو پسند کرتے ہیں اور کرکٹ میں ان کو فالو کرتے ہیں اور انہی کی طرح سخت محنت کرنا چاہتے ہیں. اسی سال ہونے والے انڈر 19 کے ٹرائلز میں جنید نے ٹاپ کیا پھر وہ ریجن کی ٹیم میں اپنی جگہ بنانے میں ناکام رہے وہ دلبرداشتہ تھے اور انہوں نے محنت جاری رکھی تاہم ریجن کے اسی ٹورنامنٹ کے آخری دو میچز کے لئے انہیں بلایا گیا پر جنید ان دونوں ہی میچز میں خاطر خواہ کارکردگی نہ دکھا سکے جس کی وجہ سے انہوں نے اپنے کوچز کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے دوبارہ اکیڈمی جانے اور محنت کرنے کو بہتر سمجھا.انڈر 19 تھری ڈی ٹورنامنٹ میں جونید نے شاندار کارکردگی دکھاتے ہوئے صوبہ بلوچستان میں ٹاپ کیا جب کہ پاکستان بھر میں ان کی کارکردگی تیسرے نمبر پر رہی جس کا صلہ ان کو یہ ملا کہ ان کا نام رواں سال ہونے والے انڈر 19 کرکٹ ورلڈ کپ 2018 میں بطور ریزرو پلیئر آگیا جس پر وہ خوش تو تھے پر ساتھ ہی ساتھ فائنل 15 میں جگہ نہ بنا پانے پر مایوس بھی۔
جنید اپنی محنت جاری رکھے ہوئے تھے اور ان کا اس بات پر پختہ یقین تھا کہ اللہ کی ذات انہیں ان کی محنت کا پھل ضرور عطا کرے گی، پھر پی ایس ایل 2018 سیزن تھری میں محمد جنید کا نام کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی ٹیم کے لیے آگیا جنید کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی نمائندگی کرنے والے شہر کوئٹہ کے دوسرے کھلاڑی بنے اس سے پہلے صرف بسم اللہ خان ہی کوئٹہ شہر سے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی نمائندگی کرنے کا اعزاز حاصل رکھتے ہیں. کوئٹہ گلیڈ ایٹرمیں شامل ہونے کے بارے میں ان کا کہناتھا کہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے کیمپ کا حصہ بننے پر بہت خوشی تھی اللہ پاک کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے کہ اتنی بار فیل ہونے کے بعد اس نے موقع عطا کیا جنید کا کہنا تھا کہ یہ سب ان کے ماں باپ کی دعاؤں کا نتیجہ ہے جب بھی مشکل وقت آیا ان کے والد نے انہیں امید دلائی کہ انہیں ان کی محنت کا صلہ ملے گا بس وہ اپنی محنت جاری رکھیں اور صحیح وقت کا انتظار کریں. پی ایس ایل جہاں ملکی اور غیر ملکی کرکٹ کے ستارے موجود تھے وہاں بہت کچھ سیکھنے کو ملا خاص کرکے ڈائیٹ کون سی استعمال کرنی ہے سکس ٹائم کرنی ہے اور کس ٹائم جسم کو آرام دینا ہے میں نے یہ سب چیزیں اپنی روٹین کا حصہ بنا لیا لیے بہت مددگار ثابت ہوتی ہیں ویورچرڈز کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ان سے ملنا ہر کرکٹر کا خواب ہوتا ہے اور ہر کرکٹر کی طرح یہ میرا بھی خواب تھا جو کہ پی ایس ایل کے ذریعے پورا ہوا جس کے لیے میں اللہ کا شکر گزار ہوں اور ساتھ ہی ساتھ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی مینجمنٹ کا جنہوں نے مجھ پر اعتبار کیا اور یہ موقع فراہم کیا کہ میں ان ستاروں کے ساتھ کرکٹ کھیل سکوں اور ڈریسنگ روم شیئر کر سکوں.
ان کا کہنا تھا کہ ویورچرڈز بہترین آدمی ہیں وہ نوجوان کھلاڑیوں کو بہت موٹیویٹ کرتے ہیں.اگر کوئی غلطی ہوجائے تو الگ سے گائیڈ کرتے ہیں. سرفراز احمد بھی بہترین انسان اور کپتان ہیں،ینگسٹرز کو بہت سپورٹ اور بیک کرتے ہیں.،ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنا آئیڈیل ویرات کولی کو مانتے ہیں اور ان سے ملنے کی خواہش رکھتے ہیں، جبکہ پی ایس ایل میں وہ اپنے ٹیم میٹ رائلی روسو سے ملنے کے لیے ایکسائٹڈ تھے جنید کا کہنا تھا کہ اگر انہیں موقع ملتا تو انہوں نے سوچا تھا کہ وہ لوک رونکی اور ڈیرن سیمی کو آؤٹ کرنا چاہیں گے،
کیون پیٹرسن کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پیٹرسن سے بات کرتے تھوڑی گبھرا ہٹ ہو رہی تھی جبکہ رائلی روسو سے بہت اچھی دوستی ہوگئی تھی رائلی روسو نے مجھے اپنا بیٹ بھی تحفہ دیا جس سے پی ایس ایل میں کھیلاساوتھ افریقن بلے باز رائلی روسو اور اسد شفیق وہ سینئر پلیئرز تھے جو نوجوان پلیئرز کو خود جا کے گائیڈ کرتے اور ان کی غلطی سدھارنے میں مدد کرتے، اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئٹہ گلیڈی ایٹر پی ایس ایل کی ٹاپ ٹیم میں سے ایک ہے جنید کے نزدیک ٹیم کوئٹہ کی کامیابی کا راز محنت? یکجہتی جیت کا جنون ہے ویو رچرڈز کی موٹیویشن اور کوچز کی بہترین پلاننگ ہے۔انکا مزید کہنا تھا کہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز ایک خاندان کی مانند ہے۔ محمد جنید کا کہنا تھا کہ بطور کرکٹر انہوں نے پی ایس ایل سے بہت کچھ سیکھا اور پی ایس ایل کی وجہ سے ان کے کھیل میں نکھار پیدا ہوا جس کی وجہ سے جنید کو پاکستان انڈرنائنٹین ایشیا کپ کے سکواڈ میں بھی جگہ مل سکی ان کا کہنا تھا کہ ان سے کی کوچز اور انکی ریجن کے کوچ نے ان پر بہت محنت کی جس کے لیے وہ ان کے شکر گزار ہیں پی ایس ایل اور انڈرنائنٹین ایشیا کپ میں پاکستان کی نمائندگی کے بعد جنید کا کہنا ہے کہ لوگ اب انہیں پہچاننے لگے ہیں اور انہیں اپنے مداحوں اور دوستوں سے مل کر خوشی ہوتی ہے وہ جس سے بھی ملتے ہیں عام آدمی اور دوستوں کی طرح ملتے ہیں ان کا کہنا تھا کہ انسان کو عاجز رہنا چاہیے اور ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے کوئٹہ میں کرکٹ کے مسائل کے بارے میں بات کرتے ہوئے جنید کا کہنا تھا کہ کوئٹہ میں گراؤنڈز کی کمی اور 50 اوورز کرکٹ کی کمی کی وجہ سے زیادہ کھلاڑی آگے نہیں آ پا رہے ان کا مزید کہنا تھا کہ کوئٹہ میں کرکٹ ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے مگر کرکٹ ایسوسی ایشن کو چاہئے کہ وہ کھلاڑیوں کو سپورٹ کریں اور حکومت کو چاہیے کہ وہ بلوچستان میں زیادہ سے زیادہ گراؤنڈز بنائے تاکہ یہاں کے کھلاڑیوں کو کھیل کے بہترین مواقع فراہم کرے اور وہ بھی باقی صوبوں کی طرح پاکستان ٹیم کی نمائندگی کرسکیں.
جنید نے حال ہی میں ہونے والے انڈر 19 پینٹینگولر کپ میں بلوچستان ٹیم کی نمائندگی کی جس میں جنید کی پرفارمنس نمایاں رہی اور بلوچستان ٹیم نے جنید کی رہنمائی میں ٹورنامنٹ کے فائنل میں جگہ بنائی تاہم ٹیم بلوچستان فائنل اپنے نام نہ کر سکی. جنید کا مزید کہنا تھا کہ وہ قسمت سے زیادہ محنت پر یقین رکھتے ہیں محنت جاری رکھیں تو قسمت بھی ساتھ دیتی ہے. جنید کھیل کے ساتھ ہی اپنی تعلیم کو بھی جاری رکھے ہوئے ہیں اور ڈی کو م سیکنڈ ائیر کے طالب علم ہیں ان کا کہنا تھا کہ تعلیم کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھنے والے انسان کے لئے ضروری ہے اسی طرح ایک کھلاڑی کے لئے بھی تعلیم اتنی ہی ضروری ہے برحل ان کی زیادہ توجہ اپنی کرکٹ پر رہتی ہے کیونکہ وہ مستقبل میں پاکستان کی نمائندگی بطور کھلاڑی کرنا چاہتے ہیں. اگر کرکٹر نہ ہوتے تو کیا ہوتے اس سوال پر جنید کا کہنا تھا کہ وہ اگر کرکٹر نہ ہوتے تو عالم ہوتے جو کہ ان کی والدہ کی خواہش تھی۔ جنید کا کہنا تھا کہ بطور انسان مجھے اپنے اندر نرم مزاجی اور صبر لانا ہے اور بطور کرکٹر مجھے ذہنی طور پر اور مضبوط ہونا ہے تاکہ وہ اپنا ہدف جلد سے جلد حاصل کرسکیں۔ ان کے مستقبل کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ ہر موقع پر اچھی پرفارمنس دینا چاہتے ہیں اور ان کی طرف آئے ہوئے ہر موقع کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں اور جلد از جلد پاکستان کی نمائندگی کرنا چاہتے ہیں. آخر میں دوستوں اور مداحوں کے نام پیغام میں انہوں نے کہا کہ آپ کا تعلق زندگی کے کسی بھی شعبے سے ہو اپنی محنت جاری رکھیں اور اللہ پر یقین رکھیں اتنی محنت کریں کہ آپ کو ہرانے کے لیے سازشیں کی جائے اور جب تک آپ اپنے امقصد تک نہ پہنچ جائیں اس محنت کو جاری رکھیں ہمیشہ اچھا انسان بننے کی کوشش کرتے رہے اپنے اس دوست محمد جنید کو دعاؤں میں یاد رکھیں.
انٹرویو: سلمان بٹ