ییل یونیورسٹی میں ماہرین کی ایک تحقیقی ٹیم نے دریافت کیا ہے کہ غیرمعمولی کارکردگی کی حامل، لیتھیم آکسیجن بیٹریوں کو بہتر اور قابلِ عمل بنانے میں عمل انگیز (کیٹالسٹ) کے طور پر ’’ہیم‘‘ سے زبردست مدد لی جاسکتی ہے جو خون کا لازمی حصہ بھی ہوتا ہے۔
موبائل، ٹیبلٹ اور لیپ ٹاپ میں آج کل جو بیٹریاں عام استعمال ہورہی ہیں انہیں ’’لیتھیم آئن بیٹریز‘‘ کہا جاتا ہے مگر اِن آلات میں بجلی کی ضرورت مسلسل بڑھتی جارہی ہے جس کی وجہ سے ان بیٹریوں کو بار بار چارج کرنے کی ضرورت پڑتی ہے اور اس میں خاصا وقت بھی لگ جاتا ہے۔ بار بار چارج ہونے کے باعث یہ بیٹریاں بھی بہت جلد اپنی زندگی پوری کرلیتی ہیں۔
ان کا ایک ممکنہ متبادل ’’لیتھیم آکسیجن بیٹریز‘‘ کی شکل میں حالیہ چند برسوں کے دوران سامنے آیا ہے۔ یہ مروجہ لیتھیم آئن بیٹریوں کے مقابلے میں نہ صرف جلدی چارج ہوجاتی ہیں بلکہ ان میں چارج ذخیرہ کرنے کی گنجائش بھی ان مروجہ بیٹریوں کے مقابلے میں 4 گنا تک زیادہ ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ چارج ہوجانے کے بعد یہ بیٹریاں کئی ہفتوں تک مسلسل کارآمد رہ سکتی ہیں۔ البتہ یہ اب تک صرف اس لیے تجارتی و کاروباری پیمانے پر نہیں پہنچ سکیں کیونکہ ان میں لیتھیم اور آکسیجن میں کیمیائی عمل کے نتیجے میں ایک ناپسندیدہ مرکب ’’لیتھیم پرآکسائیڈ‘‘ بھی بنتا ہے جو بیٹری میں الیکٹروڈز پر جمع ہوکر انہیں ناکارہ کردیتا ہے۔
ییل یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ یہ مسئلہ بہ آسانی حل کیا جاسکتا ہے اور اس میں ’’ہیم‘‘ (heme) نامی سالمہ بطور عمل انگیز بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ یہ سالمہ (مالیکیول) اس اعتبار سے منفرد ہے کہ یہ ایک طرف تو لیتھیم آکسیجن بیٹری کو چارج ہونے کے لیے درکار توانائی کم کردیتا ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ الیکٹروڈز پر لیتھیم پرآکسائیڈ بھی جمع ہونے نہیں دیتا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کھانے کے لیے گوشت حاصل کرنے کی غرض سے روزانہ لاکھوں کی تعداد میں جانور کاٹے جاتے ہیں اور ان سے نکلنے والے خون کی محفوظ تلفی ایک مسئلہ ہی رہتی ہے لیکن لیتھیم آکسیجن بیٹریوں میں ہیم کا استعمال اُن کی کارکردگی بڑھانے کے ساتھ ساتھ آلودگی کا باعث بننے والے اس خون کے بہتر استعمال کی راہ بھی ہموار کرے گا۔
واضح رہے کہ خون کے سرخ خلیات میں ’’ہیموگلوبن‘‘ کا اہم ترین جزو ’’ہیم‘‘ ہوتا ہے جو ہوا سے آکسیجن جذب کرنے کا ذمہ دار بھی ہوتا ہے اور اسی کی وجہ سے خون کی رنگت بھی سرخ دکھائی دیتی ہے۔