امریکی الیکشن میں انتخابی مہم کا مرحلہ دلچسپی کے تمام مراحل عبور کرنے کے بعد الیکشن کے دن تک پہنچتا ہے،امریکہ میں رہنے والوں کے لیے الیکشن نہ صرف دلچسپ ہوتے ہیں بلکہ بین الاقومی برادری کی توجہ بھی حاصل کرتے ہیں۔ری پبلکن اور ڈیموکریٹ امیدوار مستقبل کا ایجنڈا پیش کرتے ہیں۔ خاص طور پر صدارتی مباحثہ عوامی دلچسپی کا باعث بنتا ہے اس کے علاوہ امریکی رائے عامہ کو اپنے حق میں کرنے کے لیے امیدواروں کو سخت جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔امریکہ کی خارجہ پالیسی کی مختلف جہتیں ہیں جو دنیا بھر کے ممالک پر اثر انداز ہوتی ہیں،اس لیے الیکشن مہم میں امیدواروں کی خارجہ پالیسی کوبیرون دنیا میں بھی خاصی اہمیت حاصل ہوتی ہے،ری پبلکن اورڈیموکریٹ امیدوار دنیا کے اہم معاملا ت پر اپنےبیان دےکرعالمی توجہ بھی حاصل کرتے ہیں، جس میں دہشتگردی،مالیاتی پالیسی،امریکیوں کی انفرادی آزادی،ہم جنس پرستی اورغیرملکی آبادکاروں کی توجہ حاصل کرنا بھی ضروری خیال کیا جاتا ہے۔پاکستان میں بھی امریکی الیکشن کو حکومتی سطح پر نہایت اہمیت حاصل ہو تی ہے لیکن اب پاکستان میں میڈیا کی آزادی کے بعدامریکی الیکشن کوبھرپور کوریج دی جاتی ہے اورمیڈیا کےبڑے ادارے باقاعدہ اپنے نمائندے الیکشن کی براہ راست کوریج کر رہے ہیں۔ یہ بات بھی درست ہے کہ امریکہ کی حالیہ خارجہ پالیسی میںپاکستان کی اہمیت روس کی افغانستان میں فوجی مداخلت سے شروع ہوتی ہے اوریہاں سے پاکستان اورامریکہ کی مصنوعی دوستی کا دور شروع ہوتا ہے اِس دوستی میں امریکہ کی طرف سے سختی کا عنصر9/11کے بعد شروع ہوتا ہے اور ابھی تک چل رہا ہے۔
ایک اوردلچسپ بات یہ بھی ہےہمارےملک کی قیادت منتخب ہونے کے بعدفوری طور پر واشنگٹن میں حاضر ی دےکر اپنا موقف پیش کرتے ہیں
اس کے برعکس امریکی صدور نے ہندوستان کے تفصیلی دورے سے واپسی پرچند گھنٹے اسلام آباد میں قیام کرتے اورہدایات دے کر رخصت ہو جاتے،صدر کلنٹن نے پاکستان میں 6گھنٹے کا ”طویل دورہ“ کیا اس طرح صدر بش جونئیر نے ہندوستان سے واپسی پر ایک رات امریکن ایمبیسی میں قیام کیا اور صبح کرکٹ کھیل کر واپسی کی راہ لی اور براک حسین اوبامہ نے اپنے آٹھ سالہ دور حکومت میں ہمیں عزت افزائی کا موقع ہی نہیں دیا۔البتہ ااپنے دور کے اختتام پر فلپائن کے صدر سے خوب کھری کھری سنیں۔مگر ان باتوں سے ہماری اہمیت کم نہیں ہوتی پاکستان دہشتگردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں امریکہ کا صف اول کا اتحادی ہے اور امریکی صدور اپنی دوسری مدت کے لیے منتخب ہونے کے لیے رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے پاکستان کی سرزمین کا استعمال کرتے ہیں جس کا اندازہ بش جونئیر اور براک اوبامہ کی دوسری مدت کے لیے منتخب ہونے کے لیے پاکستان کی سرزمین پرہونے والے واقعات سے لگایا جا سکتا ہے۔
اس دفعہ الیکشن کی خاص اہمیت ہیلری کلنٹن بطور خاتون صدر متوقع کامیابی امریکی تاریخ کا غیر معمولی واقعہ بن سکتی تھی ،ڈونلڈ ٹرمپ اب امریکی صدرمنتخب ہوچکے ہیں ان کی کامیابی پر فکر اور سوچ رکھنے والوں کو تحفظات ہیں۔
اُنکے خیال میں ڈونلڈ ٹرمپ کےخیالات امریکی معاشرے کے لیے خطرناک ہو سکتے ہیں
دوسری طرف خالص جمہوری رکھنے والوں کاکہنا ہےکہ ڈونلڈ ٹرمپ کو واضح برتری کے ساتھ منتخب کرنے والے بھی امریکن شہری ہی ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ پر خواتین کےسنگین الزمات بھی کچھ نہیں بگاڑ سکے، مسلمانوں کے بارے میں سخت پالیسی،غیرملکی تارکین وطن کوسخت پیغام اورڈونلڈ ٹرمپ کی پوری الیکشن مہم تنازعات کاشکار رہی اور بین الاقومی میڈیا ٹرمپ کوایک احمق شخص قرار دیتا رہا لیکن الیکشن مہم کے آخری دنوں میں ہیلری کو امریکہ کے قومی سلامتی کے معاملات پر بداحتیاطی برتنے کا الزامات کا سامنا کرنا پڑا اوریکم نومبرکےبعد ہونے والےتازہ سروے کے مطابق ٹرمپ کو ہیلری پر برتری مل چکی تھی۔جیسےہی ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کاامکانات روشن ہوئےتوساتھ ہی کنیڈا کی امیگریشن اپلائی کرنے کی ویب سائٹ کریش کر گئی اورنیوزی لینڈ کی امیگریشن ویب سائٹ پروزٹ کرنےوالوں کورش پہلے کی نسبت بڑھنے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔امریکہ میں بسنے واے 15لاکھ مسلمانوں کی اکثریت ہیلری کومنتخب ہوتےدیکھناچاہتی تھی اسطرح پاکستانیوں کی ہمدردیاں بھی ہیلری کلنٹن کے پلڑے میں تھیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کومشرق وسطی کے حوالے سے ایک سخت گیر شخص کو طور پر دیکھا جا رہا ہے اور ٹرمپ اپنے بیانات میں ہیلری پر داعش کو تخلیق کرنے کے الزمات بھی لگا چکے ہیں
اوراس کوختم کرنےکےلیےاپنی پالیسی بھی بیان کرچکے ہیں،یہاں یہ ذکربھی ضروری ہےامریکہ اورمشرق وسطی کےتجارتی تعلقات چند دنوں میں ختم نہیں ہوسکتے۔قابل ذکربات یہ ہےکہ ڈونلڈ ٹرمپ کےہاتھ میں امریکہ کی قیادت ایسے وقت میں ہاتھ میں آئی ہے جب روس دوبارہ سے عالمی معاملات میں مداخلت کرنے کی طاقت حاصل کر رہا ہے اور شام کے بحران میں امریکا اور یورپ کو مسلسل نظر انداز کر رہا ہے، چین دنیا کی ایک بڑی معاشی طاقت بن چکا ہے اورباقاعدہ طور پر امریکا کو سخت پیغام دے رہا ہے جس کی مثال صدر براک اوبامہ کے حالیہ دورہ چین کے دوران دیکھنے میں آئی جب چینی حکام نے امریکی صدرکا استقبال شایان شان طریقے سے نہیں کیا۔بہرحال ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکا کی قیادت ایسے وقت میں ملی ہے جب امریکی طاقت کی کشتی کے کچھ بادبانوں کو مرمت درکار ہے۔ٹرمپ نے الیکشن مہم میں وعدہ کیا تھا کہ اپنی صدارتی مہم پر خرچہ وہ اپنی جیب سے کریں گے تاکہ وہ عطیات دینے والوں کے زیرِ اثر نہ رہیں۔ انھوں نے میکسیکو سے امریکہ آنے والے تارکینِ وطن کے بارے میں کہا تھا کہ ان میں سے بہت سے جنسی تشدد کرنے والے اور منشیات فروش ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میں امریکی آئین کی دوسری ترمیم (عام شہریوں کے ہتھیار رکھنے کا حق) کو محفوظ رکھوں گا، ہمسایہ ملک میکسیکو کی سرحد پر دیوار بناو ¿ں گا، اوباما کیئر کو منسوخ کر دوں گا، مسلمانوں کی امیگریشن پر پابندی اور امریکہ کے بین الاقوامی تجارتی معاہدوں پر دوبارہ مذاکرات کروں گا۔اب دیکھنا یہ ہو گا کہ بطور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ الیکشن میں دی گئی اپنی پالیسیوں میں تبدیل کریں گئے یا پھر سخت گیر شخص کے طور پر اپنا رویہ برقرار کھیں گئے۔ریاست امریکا کا صدر چاہے ری پبلکن سے منتخب ہو یا پھر ڈیموکریٹ لیکن اُسے اپنی انتخابی مہم کے نعروں کے برعکس وہی لائن اختیار کرنا پڑتی ہے جو امریکا کی طاقتور خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی طرف سے امریکا کی ریاستی پالیسی کے طورپر رکھی جاتی ہے یعنی جیسے پاکستان کے متعلق خارجہ پایسی مزید سخت تو ہو سکتی ہے مگر اس میں نرمی کا اثر آنا مشکل نظر آتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کو الیکشن میں بھارتیوں کی حمایت بھی حاصل تھی اور ٹرمپ نے بھارتی لابی کو متاثر کرنے کے لیے بھارت کو اپنا مستقبل کا سچا دوست بھی قرار دیا
یہاں تک کہ مہم کے آخری دنوںمیں نریندر مودی کی الیکشن مہم کا نعرہ ”اب کی بار مودی سرکار “کا نعرہ اختیار کیا یعنی” اب کی بار ٹرمپ سرکار“۔ہندوستان اور امریکا میں سخت گیر پالیسی اختیار کرنے والوں کو الیکشن میں جیت ملی پاکستان میں ہونے والے اگلے انتخابات میں سخت گیر موقف اپنانے والے منتخب ہوگئے تو یہ کہا جا سکے گا عالمی رائے عامہ کافی حد تک تبدیل ہو چکی ہے۔ گا۔