اسلام آباد : وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) چیئرمین عمران خان پر درجنوں مقدمات درج ہیں لیکن آج ان کی گرفتاری القادر ٹرسٹ کیس کی انکوائری میں ہوئی ہے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا کہ القادر ٹرسٹ کیس میں ایک پراپرٹی ٹائکون کی رقم منی لانڈرنگ کے سلسلے میں برطانیہ میں پکڑی گئی تھی جو کہ 60 ارب روپے کے لگ بھگ ہے اور قانون کے مطابق یہ رقم پاکستان کے عوام کی امانت تھی اور قومی خزانے میں واپس آنی تھی۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ برطانیہ کی حکومت نے پاکستانی حکومت سے رابطہ کیا اور وہ رقم قومی خزانے میں واپسی سے متعلق بات چیت کی تھی۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ القادر ٹرسٹ بنایا گیا جس کے نام پر پراپرٹی رجسٹرڈ ہوئی، میں نے 8 ماہ پہلے اس پراپرٹی کی تفصیلات پیش کی تھیں اور عمران خان کو چیلنج کیا تھا کہ وہ جواب دیں کہ انہوں نے کرپشن اور رشوت کو چھپانے کے لیے القادر ٹرسٹ بنایا تھا۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ بنی گالا میں 240 کینال فرح گوگی کے نام پر ہیں اور کل پراپرٹی کی مالیت 60 ارب روپے کے قریب ہے۔
رانا ثٖنااللہ نے کہا کہ اسی پراپرٹی ٹائیکون کا کیس سپریم کورٹ میں چل رہا تھا اور وہ 60 ارب روپے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں ایڈجسٹ کروا دیے گئے، افسوس کی بات ہے کہ سپریم کورٹ نے بھی اس بات کا نوٹس نہیں لیا کہ ایک بیرونی ملک سے دھوکے سے رقم ہمارے اکاؤنٹ میں آرہی ہے تو وہ کس کی ہے کیوں بھیجی گئی ہے۔ پی ٹی آئی کے تمام رہنماؤں کو چیلنج کرتا ہوں کہ اب بتائیں کہ القادر ٹرسٹ کے ٹرسٹی کون ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کتنی بے حیائی کی بات ہے کہ جس وقت یہ بدبخت ٹولہ اور یہ شخص کرپشن کر رہا تھا اور ایک خط لہرا کر کابینا کو دھوکا دے رہا تھا اس وقت یہ اپنے مخالفین کے خلاف جھوٹے مقدمات بنا رہا تھا، جس وقت ایک شخص لوگوں کے خلاف کرپشن کے جھوٹے مقدمات بنا رہا تھا خود اسی وقت قومی خزانے کو 60 ارب روپے کا ٹیکا لگا کر 6 ارب روپے کی پراپرٹی اپنے نام کر رہا تھا۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ جس وقت عمران خان کو گرفتار کیا جا رہا تھا تو آگے سے مزاحمت کی کوشش کی گئ، وکلا کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ قانونی عمل میں رکاوٹ ڈالیں۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ توشہ خان کیس بھی ثابت ہے، جب میاں نواز شریف کے خلاف جھوٹے مقدمات بنائے جا رہے تھے اسی وقت یہ توشہ خانہ سے بھی چوری کر رہا تھا۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ نیب نے اس کیس میں نوٹس بھیجا اور کہا کہ آپ (عمران خانٌ) کے خلاف کرپشن کے ثبوت ہیں اس لیے آپ آئیں اور شامل تفتیش ہوں، اس میں مزید کسی تفتیش کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ ہر چیز دستاویزات میں شامل تھی لیکن ان کا پیش ہوکر الزامات کا جواب دینا ضروری تھا مگر یہ پیش نہیں ہوئے اور نوٹسز کو ہائی کورٹ میں چلینج کردیا۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ یہ گرفتاری قانون کے تحت ہوئی ہے، نیب ایک خودمختار ادارہ ہے حکومت کا اس پر کوئی عمل دخل نہیں ہے، میری کسی بھی نیب افسر سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی اور نہ ہی اس کیس کو پڑھا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں وزیر داخلہ نے کہا کہ یہ کوئی انتقامی کارروائی نہیں ہے بلکہ ثابت شدہ کرپشن ہے، قانون کی حکمرانی اور میرٹ ہے۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ تمام صوبوں کے چیف سیکرٹریز اور آئی جی صاحبان کو کہا گیا ہے کہ اگر اس بدبخت ٹولے کے لوگ گرفتاری پر کسی قسم کی امن و امان کی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کریں تو ان کے ساتھ پوری سختی سے نمٹا جائے۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ اسلام آباد میں رینجرز مستقل طور پر تعینات ہے جو کہ وزارت داخلہ کی فورس ہے اور اسلام آباد پولیس اور انتظامیا کی درخواست پر ریڈ زون اور ہائی کورٹ کے لیے اسلام آباد پولیس کے کمانڈ کے ماتحت مستقل طور پر تعینات کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج جب نیب نے عمران خان کی گرفتاری کے لیے مدد طلب کی تو اسلام آباد پولیس نے رینجرز سے بھی مدد لی تاکہ کوئی پرتشدد کارروائی عمل میں نہ لائی جا سکے۔ کیس میں پراپرٹی ٹائیکون بھی مستفید ہوئے ہیں لیکن مرکزی ملزم عمران خان ہیں۔
وزیر داخلہ نے دعویٰ کیا کہ عمران خان اس وقت ملک دشمن قوتوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور ملک دشمن قوتوں سے مل کر پاکستان کے اداروں کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ عمران خان نے پاکستان کے اداروں اور ایجنسیز کے خلاف جو بیان دیا ہے وہ بھی فرمائشی بیان ہے جس کو اس قسم کی مہم جوئی اور بیان دینے کو کہا گیا ہے۔