اللہ پاک ہم پاکستانیوںپر رحم فرمائے۔ سمجھ نہیں آتا کہ بطور قوم ہم کن اندھیرے راستوں پر گامزن ہیں؟ سیاست، معیشت، معاشرت، جس طرف بھی نگاہ ڈالیں، یوں لگتا ہے جیسے ہم نے تیزی سے ڈھلوان کا سفر شروع کر رکھا ہے۔ قوموں کی تاریخ کا جائزہ لیجئے۔ عمومی طور پر قومیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتی ہیں۔ ملک ترقی کی منازل طے کرتے ہیں۔ عوام الناس کے معیار زندگی میں بہتری آتی ہے۔ پاکستان کے حالات کار پر نگاہ ڈالیں۔ ہم نے جیسے ریورس گیئر لگا رکھا ہے۔ ایک قدم آگے بڑھتے ہیں، تو کئی قدم پیچھے کی جانب لڑھک جاتے ہیں۔معروف دانشور اور کالم نگار وجاہت مسعود صاحب نے دو دن قبل روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے اپنے کالم بعنوان "عمران پروجیکٹ کتنے میں پڑا؟ " میں پاکستان اور تین ہمسایہ ممالک کے معاشی حالات کار کو اعداد و شمار سے واضح کیا ہے۔ان اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ گیارہ برسوں میں ہمارے ہمسایہ ممالک کہاں سے کہاں پہنچ گئے ، جبکہ پاکستان کس قدر سست روی کا شکار رہا۔ لکھتے ہیں۔
" ۔۔۔ 2011 سے 2022 تک قوم کے گیارہ برس اس تجربے کی نذر ہوئے۔ آئیے جائزہ لیں کہ ا س عرصے میں ہمسایہ ممالک نے کون سی منزلیں سر کیں اور ہم کن صحراؤں کی خاک چھانتے رہے۔ صرف تین ممالک چین، بھارت اور بنگلہ دیش لے لیں۔ 2011 میں چین کا جی ڈی پی 7,552 کھرب ڈالر تھا جو 2022 میں 19.9 کھرب ڈالر ہو گیا۔ 2011 میں بھارت کا جی ڈی پی 1.8کھرب ڈالر تھا جو 2022 میں 3.29 کھرب ڈالر ہو گیا۔ بنگلہ دیش کا جی ڈی پی 2011 میں 128.6 ارب ڈالر تھا جو 2022 میں 350 ارب ڈالر ہو گیا۔2011 میں پاکستان کا جی ڈی پی 213.6 ارب ڈالر تھا جو اب 292 ارب ڈالر ہے۔2011 میں چین کی فی کس آمدنی 5553 ڈالر تھی جو 2022 میں 12358 ڈالر ہو گئی۔ 2011 میں بھارت کی 1458 ڈالر فی کس آمدنی اب 1850 ڈالر ہے۔ 2011 میں بنگلہ دیش کی862 ڈالر فی کس آمدنی آج 2227 ڈالر ہو چکی ہے۔ 2011میں پاکستان کی فی کس آمدنی 1165 ڈالر تھی جو اب 1190 ڈالر ہے۔
گیارہ برسوں میں چین کے زر مبادلہ کے ذخائر 3181 ارب ڈالر سے بڑھ کر 3222 ارب ڈالر ہو گئے۔ بھارت کے زرمبادلہ کے ذخائر 275 ارب ڈالر سے بڑھ کر 634 ارب ڈالر ہو گئے۔بنگلہ دیش میں 9.2 ارب سے 40.1 ارب ڈالر تک جا پہنچے۔ ہم 2011 میں 16.4 ارب ڈالر پر تھے اور اب 14.9 ارب ڈالر پر ہیں۔ان گیارہ برسوں میں چین کی برآمدات 1.898 کھرب ڈالر سے 3.36 کھرب ڈالر تک بڑھ گئیں۔ بھارت کی برآمدات301 ارب ڈالر سے400 ارب ڈالر کو پہنچ گئیں۔ بنگلہ دیش برآمدات میں 24.3 ارب ڈالر سے 50 ارب ڈالر تک جا پہنچا۔ ہماری برآمدات 2011 میں 25 ارب ڈالر تھیں اور اب 28 ارب ڈالر ہیں۔ 2011 میں بھارت میں غربت کی شرح 21.9 فیصد تھی جو اب 6 فیصد ہے۔ چین میں غربت کی شرح 0.7 فیصد سے کم ہو کر 0.6 فیصد رہ گئی ہے۔ بنگلہ دیش میں غربت کی شرح 2011 میں 19.2 فیصد سے کم ہو کر 14 فیصد رہ گئی ہے۔ پاکستان میں غربت 83.6 فیصد سے کم ہو کر 39.2 فیصد تک آئی ہے۔ـ"
ان اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ارد گر د کے ممالک نے گیارہ برسوں میں کس تیزی رفتاری سے معاشی ترقی کی منازل طے کیں۔ جبکہ پاکستان کسی کچھوے کی رفتار کا مظہر بنا رہا۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمارے ملک میں ، اس کی معیشت میں اور افرادی قوت میں ترقی کرنے کی صلاحیت کا فقدان ہے۔ وجہ یہ ہے کہ یہاں ہم نت نئے سیاسی تجربے کرتے رہے۔ جان بوجھ کر سیاسی انتشار اور بے یقینی پھیلاتے رہے۔ مثبت کاموں کو بھی سیاسی تعصب کی عینک ے دیکھتے اور ان کی تکمیل میں رکاوٹیں ڈالتے رہے۔ ان سب اقدامات نے معیشت کی کشتی کو ہمیشہ ڈانوا ڈول رکھا۔
یہ صورتحال فقط معیشت تک محدود نہیں۔ پاکستان میں سماجی قدریں اور اخلاقیات بھی زبوں حالی کا شکار ہیں۔ بدقسمتی سے اس کے پیچھے بھی سیاست ہی کارفرما ہے۔ سیاسی اختلاف رائے کو حق اور باطل کی جنگ بنا دیا گیا ہے۔ جھوٹ سچ کی پہچان ختم ہوتی جا رہی ہے۔ رشتوں ناطوں اور بڑوں چھوٹوں کے مابین ادب اور لحاظ کی لکیر دھندلاتی جا رہی ہے۔ مسجد نبوی ﷺ کے احاطے میں محض سیاسی اختلاف رائے کی وجہ سے گستاخی اور بے ادبی کا ارتکاب ہوا۔ بد بختی دیکھیے کہ کچھ لوگ اس کے لئے بھی جواز تراشتے دکھائی دئیے۔ رمضان المبارک میں یہ واقعہ بھی پیش آیا کہ ایک ہوٹل میں افطاری کرتے نور عالم خان او ر دیگر اراکین پارلیمان کو سیاسی اختلاف رکھنے والے ایک بزرگ آدمی نے سر عام گالیاں دیں۔ ردعمل میں اراکین پارلیمان نے اس شخص کو ماراپیٹا ۔ کیا ہم سیاسی پسند نا پسند میں اس قدر اندھے ہو چکے ہیں کہ مقدس مقامات اور مقدس ایام کا احترام بھی کھو بیٹھے ہیں؟
میڈیا پر نگاہ ڈالیں کہ کس طرح بیشتر اوقات جھوٹ کا بازار گرم رہتا ہے۔ خاص طور پر سوشل میڈیا نے ہر حد پار کر لی ہے۔یہاں شعوری طور پر جھوٹ کی ترویج کی جاتی ہے۔ جبکہ سچ کو جھوٹ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ا س کے پیچھے بھی محض سیاسی اختلاف رائے کارفرما ہوتا ہے۔ چند دن پہلے سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کا جعلی آڈیوپیغام کثرت سے پھیلایا گیا۔ جنرل صاحب کو اس کی تردید کرنا پڑی۔ اس کے بعد جسٹس (ر) ناصرہ جاوید اقبال کا جعلی پیغام وائرل کر دیا گیا۔ انہیں تردید کرنا پڑی۔ آج کل سابق چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ کا جعلی ٹویٹر پیغام زیر گردش ہے۔ یہ دیکھ کر زیادہ دکھ ہوتا ہے کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے افراد جھوٹ پھیلاتے ہوئے ذرا نہیں ہچکچاتے۔ انہیں لگتا ہے کہ مخالف نقطہ نظر کے خلاف جو بھی سچا جھوٹا مواد دکھائی دے اسے پھیلانا ان کا فرض ہے۔ کاش ہم قرآن پاک میں سورت حجرات کی وہ آیت یاد رکھیں، جس میں اللہ پاک فرماتا ہے کہ اے ایمان والو! جب تمہارے پاس کوئی خبر آیا کرئے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو۔ تحقیق اور تصدیق کا رواج تو سمجھیں ختم ہی ہو گیا ہے۔
ہمارے ارد گرد بسنے والی قومیں ترقی کی منازل طے کررہی ہیں۔ اپنا مستقبل سنوارنے اور اقوام عالم میں اپنا مقام بنانے میں مصروف ہیں۔ جبکہ ہم گالی گلوچ اور الزام تراشی میں الجھے ہوئے ہیں۔ سیاسی اختلافات کی وجہ سے بد کلامی اور جھوٹ کے دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔ ہمارے سامنے کوئی ٹارگٹ نہیں ہے۔ ہمیں فکر نہیں کہ قوم کے نوجوانوں کو تعلیم کی طرف راغب کریں۔ انہیں سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اتاریں۔ ہمیں کوئی غرض نہیں کہ لاکھوں ،کروڑوں لوگ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ انہیں دو وقت کی روٹی تک میسر نہیں ہے۔ ملک پر قرضوں کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ آئی ۔ایم۔ایف اور فاٹف کا شکنجہ ہمارے گرد تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ ہمارا پاسپورٹ بے وقعت ہے۔ ہماری کرنسی بے قدر ہے۔ ہماری افرادی قوت کی اہمیت اور ضرورت دنیا میں کم ہوتی جارہی ہے۔اقوام عالم میں ہمارے ملک کی ساکھ گرتی جا رہی ہے۔ لیکن بطور قوم ہم بے حسی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ ا صل المیہ یہ ہے کہ ہمیں کسی قسم کا ا حساس زیاں نہیں۔