قارئین کرام، آپ نے ٹی وی پہ دیکھ لیا ہو گا اور اخباروں میں خبر پڑھ لی ہو گی کہ رضا باقر کی ریٹائر منٹ کے بعد مرتضیٰ سید گورنر سٹیٹ بنک کے عہدے پہ فائز ہو چکے ہیں۔ اس عجیب اور پیچیدہ صورتِ حال میں وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کراچی میں جو پریس کانفرنس منعقد کی تو اس میں واضح کیا کہ سٹیٹ بینک کی خودمختاری کے باعث قرضہ نہیں لے سکتے۔ ان کے مطابق پٹرول 245 روپے فی لیٹر ہونا چاہیے تھا۔ حکومت اس پر تیس روپے اور ڈیزل پر ستر روپے فی لیٹر نقصان برداشت کر رہی ہے۔ دوسری جانب ملک میں سیاسی فضا کشیدہ ہے۔ سیاسی عدم استحکام کے باعث ملکی معیشت کو دباؤ کا سامنا ہے۔ جبکہ عوام کو ریلیف ملنے کی اُمیدیں بھی دم توڑتی ہوئی محسوس ہو رہی ہیں۔ موجودہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ عمران خان کی حکومت معاشی محاذ پر جگہ جگہ لینڈ مائنز (بارودی سرنگیں) بچھا کر گئی ہے۔ نئی حکومت کے مطابق عمران خان نے ایک سو پچاس ارب روپے ماہانہ کی سبسڈی پٹرول پر دی، جو معاشی اعتبار سے بہت نقصان دہ ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ معیشت بُرے حال میں ہے لیکن یہ کہ وہ پوری کوشش کر رہی ہے کہ اس میں بہتری لائی جائے، جبکہ ناقدین کا خیال ہے کہ ملکی معیشت میں بہتری لانا اتنا آسان نہیں ہے۔ یوکرین کی جنگ، سپلائی چین میں خلل اور عالمی طلب میں بحالی کی وجہ سے قیمتوں میں اضافے کو مزید تقویت ملی ہے۔ اشیا کی بین الاقوامی قیمتیں نہ صرف مہنگائی کو بلند رکھتی ہیں بلکہ یہ پاکستان کے بیرونی کھاتے اور اس وجہ سے اس کے زرمبادلہ کے ذخائر پر بھی بوجھ ہیں۔ وزارتِ خزانہ نے کہا ہے کہ اخراجات میں زیادہ سبسڈیز اور گرانٹس مالیاتی کھاتوں پر نمایاں بوجھ ڈال رہے ہیں۔ معاشی ماہرین نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے کہ تجارتی خسارہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ جوں جوں درآمدات بڑھ رہی ہیں، درآمدات کو سنبھالنا ممکن نہیں ہو پا رہا۔ افراطِ زر بھی بڑھ رہا ہے جس کے نتیجے میں شرح سود میں اضافہ ہوا ہے، اب اس میں مزید اضافہ متوقع ہے۔ ٹریژری بلز کی نیلامی نے واضح کر دیا ہے کہ موجودہ شرح سود کو برقرار رکھنا ممکن نہیں ہو گا۔ سود میں اضافے سے معیشت سست روی کا شکار ہو گی۔ معاشی شرح نمو متاثر ہو گی، جس سے بے روزگاری بڑھے گی۔ اس کے علاوہ حکومت کو لیے گئے قرضوں پر زیادہ رقم سود کی مد میں ادا کرنا پڑے گی، نتیجتاً مشکلات میں گھری نئی حکومت کی جیب پر اخراجات کا بوجھ مزید بڑھ جائے گا۔ معاشی ماہرین کے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ، بلند مالیاتی خسارہ اور اقتصادی ترقی کے امکانات کو کم کرنے سمیت غیر معینہ دورانیے تک جاری رہنے والی اندرونی اور بیرونی چیلنجز کے امتزاج کے پیش نظر آنے والے مشکل دنوں کی پیشگوئی کی ہے۔ ملکی اور بین الاقوامی منظر نامے بدل رہے ہیں جو معاشی بحالی کے لیے مضمرات رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ افراطِ
زر اور بیرونی شعبے کے دباؤ سے معیشت میں مائیکرواکنامک عدم توازن پیدا ہو رہا ہے۔ بین الاقوامی پیش رفت اور ملک میں مسلسل بلند مہنگائی کی شرح ملکی اقتصادی سرگرمیوں کو متاثر کر سکتی ہے۔ بین الاقوامی اور ملکی سطح پر مہنگائی میں موجودہ رجحان کا تعین کرنے والے عوامل میں سپلائی چین کے مسائل اور اشیا کی بین الاقوامی قیمتوں میں اضافہ شامل ہیں۔ سی پی آئی (کنزیومر پرائس انڈیکس) میں مجموعی طور پر اضافہ درآمدی اشیا کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ہے کیونکہ پاکستان ایسی اشیا خاص طور پر خام تیل، دالوں اور خوردنی تیل کا خالص درآمد کنندہ ہے جو بالآخر مقامی قیمتوں میں منتقل ہوتا ہے۔ بہت سے دوسرے ممالک کو اشیا کی بلند اور غیر مستحکم قیمتوں کا سامنا ہے۔ پاکستان کے مجموعی سپلائی سائیڈ کو مضبوط بنانے سے اس کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ اسے برآمدات کے لیے زیادہ پیداوار اور درآمد کی حوصلہ شکنی کا موقع دے گا۔ یہ امکانات بیرونی رکاوٹوں میں نرمی کریں گے جو تاریخی طور پر پاکستان کی معیشت پر بوجھ رہا ہے اور جس کی وجہ سے ادائیگیوں کے توازن کے بحران کا سامنا رہا۔ گزشتہ پونے چار برس کے عرصے میں وزارتِ خزانہ میں بار بار تبدیلیاں کی گئیں۔ مشیر اور وزیر بدلے تو سیکرٹری بھی تبدیل ہوتے رہے۔ ایف بی آر اور بورڈ آف انویسٹمنٹ کے ذمہ دار بھی بار بار بدلے گئے، کسی کو چین سے کام کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ شرح سود میں اضافے سے قرضوں کے بوجھ میں شدید اضافہ ہوا اور اب ایک بار پھر خطرے کی گھنٹیاں بج اُٹھی ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ نہیں ہو سکا۔ سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلات بڑھیں، لیکن وہ بھی کرنٹ اکاؤنٹ کا توازن برقرار رکھنے میں کامیاب نہیں ہو رہیں۔ برآمدات میں اضافہ ہو یا غیرملکی سرمایہ کار پاکستان کا رخ کریں، اسی طرح زرمبادلہ کی کمی کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ مالی سال 2022ء میں صنعتی نمو میں کمی کی پیشگوئی کی گئی ہے، کرنسی میں گراوٹ، تیل اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ نظر آ رہا ہے جبکہ زراعت کا شعبہ جی ڈی پی بڑھانے کے لیے مثبت اشارے دے رہا ہے۔ افراطِ زر کی شرح مالی سال 2022ء میں 11 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے، تیل اور گیس کی بڑھتی قیمتیں افراطِ زر پر دباؤ بڑھائیں گی۔ پاکستان میں صنعت کاری کے بجائے صنعتیں ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ جب تک ہم آئی ایم ایف سے جان نہیں چھڑاتے ہمارے لیے یہ مسائل رہیں گے کیونکہ وہ ہمیں بجلی، گیس اور دوسری پیداواری چیزوں کی قیمت بڑھانے کا کہتا ہے جس سے پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے اور ملکی معیشت متاثر ہوتی ہے۔
گزشتہ کچھ برس میں ہماری درآمدات بہت بڑھ گئی ہیں جس کی وجہ سے معیشت پر بہت بوجھ ہے۔ ہمیں غیر ضروری درآمدات پر پابندی لگانی چاہیے۔ آج بھی ہمارا پیسہ درآمد کردہ مکھن، چاکلیٹ، کار، موبائل فونز، کتے اور بلیوں کے کھانے اور اسی طرح کی دوسری چیزوں پر خرچ ہو رہا ہے۔ ان پر کم از کم ایک سال تک پابندی لگائی جائے تاکہ ہم زرمبادلہ کو بچا سکیں۔ دوسرا اہم چیلنج قرضوں کی واپسی ہے۔ حکومت کو پوری کوشش کرنی چاہے کہ وہ مزید قرضے نہ لے، توازن ادائیگی قائم کرے تاکہ اس کو مزید قرضے لینے کی ضرورت نہ پڑے۔ کیونکہ جب قرضے زیادہ لیں گے تو یقینا اس پر سود بھی دینا پڑے گا جس سے مزید مسائل بڑھیں گے۔ ملکی برآمدات کو بڑھانے کے لیے روپے کی قدر میں کمی کی گئی، لیکن اس کمی کی وجہ سے ہمارا امپورٹ بل تو بڑھا لیکن ہمارا ایکسپورٹ بل نہیں بڑھ سکا۔ لہٰذا ہمیں روپے کی قیمت میں مزید کمی نہیں کرنی چاہیے، اس سے ہماری معیشت کو نقصان ہو رہا ہے۔ حکومت کو ہر درآمد کردہ شے پر ٹیکس نہیں لگانا چاہیے بلکہ ایسے ٹیکسز ٹارگٹڈ ہونے چاہئیں جو خام مال ہماری صنعتی پیداوار میں معاون ثابت ہوتا ہے، ان پر ٹیکس کم کیا جانا چاہیے تاکہ ہماری پیداواری لاگت کم ہو۔ حکومت نے ساری درآمدات پر ٹیکسز لگائے جس کی وجہ سے خام مال کی قیمت بڑھی اور اس سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہوا اور معیشت کو نقصان پہنچا۔ گو یہ درست ہے کہ ہر خرابی کی ذمہ داری موجودہ حکو مت پہ نہیں ڈالی جا سکتی کیونکہ اسے یہی کچھ ورثہ میں ملا ہے، مگر ایک مربوط حکمتِ عملی تیار کر کے وہ معاشی و اقتصادی معاملات کو درست ضرور کر سکتی ہے۔