تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنے دور میں عوامی فلاح وبہبود کے بہت سے ایسے منصوبوں پر کام کیاہے جس کے فوائد اس قوم کو آگے چل کر تاحیات ملنے والے تھے مگر ایک بڑا فائدہ جس سے پوری قوم کا فوری طور پر بھلا ہوا ہے وہ یہ ہے کہ وہ جاتے جاتے عوام میں شریفوں اور زرداریوں کے خلاف ایک جذباتی فضا قائم کر گئے ہیں،کون کہتا ہے کہ عمران خان شریفوں اور زرداریوں سے ملک وقوم کی لوٹی گئی دولت نکلوالنے میں ناکام رہے ہیں بلکہ اس سے بھی بڑا کام یہ ہے کہ ان لٹیرے حکمرانوں پر کی گئی مسلسل تنقیدنے اس لوٹی گئی دولت کو خود ان کے لیے وبال جان بنادیاہے ان دو بڑے خاندانوں اور ان کے حواریوں کی لوٹ مار کی سیاست نے ملک کے ستر سال میں قومی خزانے کو مکمل طورپر خالی کر کے اس ملک کو دیوالیہ بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی بھلا ایسے میں اس بائیس کروڑ عوام اور ملکی اداروں کو کس طرح سے چلانا ممکن تھا یہ خان کا ہی کارنامہ تھا پوری دنیا میں کرونا وبا اور مہنگائی کی شدید لہر کے باوجود عوام پر کم سے کم بوجھ ڈالنے کی کوشش کی گئی مگر اس دوران عمران خان نے ایک لمحے کے لیے بھی ملکی لٹیروں کو نہ چھوڑا مانا کہ انہیں کوئی سزا نہ دلواسکے مگر یہ سزاکیا کم ہے کہ یہ لٹیرے حکمران آج جہاں بھی جاتے ہیں عوام سے لوٹے اور جوتے ہی کھاتے ہیں نہ صرف یہ خود بلکہ ان کی اولادیں بھی نہ کردہ گناہوں کی سزابھگت رہی ہیںیہ ہے عمران خان کا کارنامہ جس نے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں انہیں دلوں کا وزیراعظم بنارکھاہے ،اور جب سے عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہواہے اس روز سے ہی اس ملک کی عوام خاص کرنوجوان اور خواتین مائیں بہنیں ایک صدمے کی سی کیفیت میں ہیں،اس پر گزشتہ ماہ میں بننے والی مکس اچار پارٹی کی حکومت جس میں باپ وزیراعظم تو بیٹا وزیراعلیٰ پنجاب کے عمل نے ان کی نام نہاد جمہوریت کے اس عمل کا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیاہے ،اس وقت شریفوں اور زرداریوں کے بچے کھچے ساتھیوں نے بھی سوشل میڈیا پر خان پر بے بنیاد الزامات کی بھرمار کررکھی ہے مگر جس طرح کے جوابات سے انہیں نوازاجارہاہے اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ کہیں شریفوں اور زرداریوں کا گھروں سے نکلنا بھی محال نہ ہوجائے،اس وقت عمران خان ملک بھر میں تاریخی جلسوں سے عوام کا سیلاب باہر لے آئے ہیں اس نے ملکی سیاست کا رخ موڑ کر رکھ دیاہے اس وقت پاکستان ہی نہیں بلکہ درجنوں ممالک میں لاکھوں کی تعداد سے عوام عمران خان کی حمایت میں گھروں سے باہر نکلے ہوئے ہیں اور امپورٹڈ حکومت نامنظور کے نعرے لگارہے ہیں
پوری دنیا میں عمران خان کی حکومت کے جانے کے بعد سے لیکر اب تک ایک ہیجانی کیفیت چھائی ہوئی ہے ۔دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف نے اپنا جو راستہ چنا ہے وہ ایک نہایت ہی مشکل فیصلہ تھا اسمبلیوں میں استعفیٰ دینے کے بعد میدان حکومتی اتحاد کے لیے کھلا چھوڑ دینا کسی بھی لحاظ آسان فیصلہ نہیں تھا، عمران خان کی حکومت جانے کے بعد اسی رات کو ہونے والے مظاہروں نے غالباً انہیں بڑا قدم اٹھانے کا حوصلہ فراہم کیا اور ان کے لیے اسمبلیاں چھوڑ کر عوام میں جانے کے فیصلے میں مدد دی، ماضی میں ایسا کوئی فوری ردعمل نظر نہیں آیا ہے، اس سے قبل بھی ملک کی سیاسی تاریخ میں منتخب وزرائے اعظم کو نکالنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں، اگرچہ اس بار نیوٹرل ہونے کے بیانیے کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ ماضی میں عوام ایسے باہر نہیں نکلے اور اس کی کئی اور بھی وجوہات ہوں گی۔نوازشریف نے اسلام آباد سے لاہور تک جو مارچ کیا تھا اس میں کسی قدر ردعمل نظر آیا تھا لیکن اس طرح سے خود بخود مظاہرے کرنا یہ ایک پیش رفت ہے۔ تحریک انصاف کے کپتان عمران خان نے ہمیشہ اپنے عمل سے کارکنوں کو یہ سکھایا کہ پیچھے ہٹنے کا راستہ کسی کے پاس نہیں ہمیشہ ثابت قدمی جیت دلا سکتی ہے عمران خان کی تقریروں میں قوم کے لیے ایک خاص پیغام ہوتاہے یہ ہی وجہ ہے کہ عمران خان کا ایک خاص ووٹ بینک بن چکا ہے جس میںایسے لوگ بھی ہیں جو 2013 سے قبل کبھی پولنگ اسٹیشن نہیں گئے تھے وہ خاندان وہ نوجوان لڑکے لڑکیاں جو کبھی سیاست میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے وہ عمران خان کی وجہ سے متوجہ ہوئے ہم نے مختلف شہروں میں دیکھا شرکاء میں اکثریت ان لوگوں کی تھی جو اس ووٹ بینک سے جڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اور جہاں تک تحریک انصاف کی جانب سے قومی اسمبلی سے استعفے دینے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے پہلے 2014 میں بھی تحریک انصاف نے قومی اسمبلی سے اجتماعی طور پر استعفے دیئے تھے اس وقت کے سپیکر ایاز صادق نے ان استعفوں کو منظور نہیں کیا تھا اور مستعفی ہونے والے اراکین اسمبلی کو تاکید کی تھی کہ وہ ذاتی حیثیت میں پیش ہو کر اپنے اپنے استعفے کی تصدیق کریں۔ تحریک انصاف کی حکومت جانے کے بعد جب ایک طرف نئے وزیراعظم شہباز شریف منتخب ہو چکے تھے تو تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ٹوئٹر پر پیغام میں کہا کہ ہم فوری انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں کیونکہ آگے بڑھنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے عوام کو فیصلے کا موقع دیا جائے کہ وہ کسے اپنا وزیراعظم منتخب کرناچاہتے ہیں ، اور یہ وہ پیغام تھا جو پی ڈی ایم کا ٹولہ مسلسل کہہ رہاتھا ، اس سلسلے میںصدر پاکستان عارف علوی کی طرف سے حال ہی میں الیکشن کمیشن کو ایک خط لکھا گیا تھا جس میں صدر نے کمیشن سے نوے دن کے اند ر انتخابات کرانے کے لیے تاریخ تجویز کرنے کو کہا تھا صدر کی طرف سے یہ خط قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے چند روز بعد لکھا گیا تھا، جس پر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اس سے پہلے ایک خط کے جواب میں صدر پاکستان کو اس بات سے آگاہ کیا تھا الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ جب تک نئی حلقہ بندیاں نہ ہوں انتخابات صاف اور شفاف نہیں ہو سکتے۔ فی الحال خان کی حکومت جاچکی ہے مگر لوگ اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں مگر عمران خان کے ان دیوانوں کو کون سمجھائے، عمران خان نے جس انداز میں پہلی مرتبہ ملک گیر سطح پر پنا ہ گاہیں اور لنگر خانے قائم کیے گئے ہیں ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثر کو کم کرنے کے لیے شجرکاری مہم کا اعتراف دنیا نے کیا۔ کورونا کی وبا نے دنیا بھر کی طرح پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا تو یہ سوال اٹھا کہ اس وبا سے نمٹنے کا بہترین طریقہ کیا ہو سکتا ہے آغاز میں پاکستان نے لاک ڈاؤن کا راستہ اپنایا لیکن وزیراعظم عمران خان نے معیشت کو درپیش چیلنجز کے باعث طویل لا ک ڈاؤن کے بجائے رفتہ رفتہ مختلف سیکٹرز کو احتیاطی تدابیر کے ساتھ کوکھولنے کی حکمت عملی اپنائی۔ انڈیا کے مقابلے میں اگر جائزہ لیا جائے تو پاکستان میں کیسز اور اموا ت کی تعداد بھی کم رہی کرونا وائرس ورلڈ میٹر ویب سائٹ کے اعداد و شمار کے مطابق انڈیا میں چار کروڑ کیسز اور سوا پانچ لاکھ اموات کے مقابلے میں پاکستان میںپندرہ لاکھ کیسز اور تیس ہزار اموات ہوئیں۔ غربت کے خاتمے کے لیے اقدامات کے سلسلے میں وزیراعظم نے احسا س پروگرا م کے تحت 31نکاتی ایجنڈا کے ذریعے 115 پالیسی منصوبوں کا اعلان کیا، ان منصوبوں میں اثاثہ جات، بلاسود قرضوں کی فراہمی اور ہنر سازی کے پروگرام کے ساتھ پناہ گاہ شیلٹر ہومز کا بھی ایک اہم منصوبہ شامل تھا جس کے تحت وفاقی دارالحکومت ، خیبر پختونخوا اور صوبہ پنجاب کے چند شہروں میں بے سہارا اور غریب افراد کے لیے پناہ گاہ مراکز کا آغاز کیا گیا، ان پناہ گاہوں میں قیام کے ساتھ ساتھ تین وقت کھانا بھی مفت فراہم کیا جارہا ہے۔لیکن اب ایسا لگتاہے کہ شاید موجودہ امپورٹڈ حکومت یہ سب منصوبے ختم کرنے کے موڈ میں ہے مگر شاید اس ملک کی عوام اور دنیا بھر میں موجود خان صاحب کے جانثار پی ڈی ایم کی اس مشترکہ حکومت کو ایسا نہ کرنے دیں کیونکہ عوام نے جلدسے جلد اس امپورٹڈ حکومت کو گھر بھیجنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔