لاہور : سرائیکی وسیب کے مشہور فوک گلوکار پٹھانے خان کو مداحوں سے بچھڑے 25 برس مکمل ہو گئے ہیں، مگر ان کی دلکش اور سریلی آواز میں گائے گئے عارفانہ کلام کا جادو آج بھی برقرار ہے۔
پٹھانے خان 1926ء میں پنجاب کے ضلع مظفرگڑھ کی تحصیل کوٹ ادو کے علاقے تمبو والا میں پیدا ہوئے، ان کا اصل نام غلام محمد تھا۔ وہ غزلوں اور لوک گیتوں میں بے مثال مہارت رکھتے تھے اور عارفانہ کلام کی گلوکاری میں اپنے ملکہ کی وجہ سے مشہور ہوئے۔
پٹھانے خان نے کئی دہائیوں تک اپنی سریلی آواز کا جادو چمکایا اور خواجہ غلام فرید، شاہ حسین، بابا بلھے شاہ، مہر علی شاہ سمیت کئی مشہور شاعروں کے عارفانہ کلام کو اپنی آواز میں رنگ دیا۔ ان کے مشہور صوفیانہ کلام میں "میڈا عشق وی توں میڈا یار وی توں"، "چینہ ایں چھڑیندا یار"، "کیا حال سناواں دل دا"، "کوئی محرم راز نہ ملدا" اور "الف اللہ چنبے دی بوٹی مرشد من وچ لائی ہُو" شامل ہیں، جنہوں نے انہیں دنیا بھر میں شہرت دی۔
پٹھانے خان نے سرائیکی اور اردو دونوں زبانوں میں غزل گائی۔ ان کی گائی ہوئی غزل "اے دوست ذرا اور قریب رگ جاں ہو" آج بھی زبان زد عام ہے۔ پٹھانے خان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں 1979ء میں صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔ ان کی منفرد، دلکش، شاندار اور جاندار آواز نے انہیں 79 مختلف ایوارڈز جیتنے میں کامیاب کیا۔ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو بھی پٹھانے خان کی آواز کے معترف تھے، جنہوں نے ان کے فن کی تعریف کی۔
پٹھانے خان 9 مارچ 2000ء کو 80 سال کی عمر میں انتقال کر گئے، لیکن ان کا فن اور ان کی آواز آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے۔ ان کے مداحوں نے کوٹ ادو بازار میں ان کی یادگار تعمیر کی اور تاریخی بازار کو ان کے نام سے منسوب کر دیا۔ اس کے علاوہ، لیہ سے کوٹ ادو روڈ کو بھی پٹھانے خان روڈ کا نام دے دیا گیا ہے۔