وطن عزیز اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحران کا شکار ہے اور ہم آئی ایم ایف کے شکنجے میں اتنے جکڑے ہوئے ہیں کہ بقول وزیر اعظم شہباز شریف ہمیں ناک سے لکیریں نکالنا پڑ رہی ہیں۔ ہم اس حوالے سے کوئی ٹھوس اقدامات اٹھانے کے بجائے بھیک مانگنے کے لیے بہتر سے بہتر کشکول کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم شہباز شریف کشکول لے کر امداد لینے جس ٹھاٹھ باٹھ سے جاتے ہیں تو امداد دینے والے اپنا موازنا ان سے کرتے ہیں اور ان کے چہروں پر درجنوں سوالیہ نشانات نظر آتے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ہمارے حکمران سونے کا کشکول لے کر بھیک مانگنے جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ان مسائل سے نکلنے کا حل عام انتخابات ہیں لیکن وفاق میں متحدہ حکومت اس سے گریزاں ہے۔ جبکہ سپریم کورٹ کے دو صوبوں میں انتخابات کرانے کے واضح احکامات کی باوجود خیبر پختون خوا کے گورنر ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں۔ پنجاب میں انتخابی شیڈول کا اعلان ہو گیا ہے لیکن محسن نقوی کی نگران حکومت نے اس کا استقبال آج لاہور میں پی ٹی آئی کی انتخابی ریلی پر جس طرح تشدد سے کیا ہے اس سے شہید بے نظیر کے لانگ مارچ پر شریف برادران کا تشدد یاد آ گیا۔ اس سے آنے والے دنوں میں نگرانوں کے ارادے بھی نظر آ رہے ہیں۔
معیشت کی اصل صورتحال کے حوالے سے ہم شدید کنفیوژن کا شکار ہیں کہ ہم کھڑے کہاں ہیں؟ بقول وزیر دفاع خواجہ آصف ہم ڈیفالٹ کر چکے ہیں جبکہ چیف آف آرمی سٹاف حافظ عاصم منیر کراچی میں ملک کی بڑی کاروباری شخصیات سے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی موجودگی میں ایک ملاقات میں کہتے ہیں کہ ہم ڈیفالٹ کی صورتحال سے نکل چکے ہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ کاروباری طبقہ اس پر یقین کرنے کو تیار نہیں کیونکہ جو بتایا جا رہا ہے زمینی حقائق اس کے قطعاً الٹ ہیں۔ جبکہ سابق صدر آصف زرداری تو ڈیفالٹ کو خاطر میں ہی نہیں لا رہے اور کہہ رہے کہ امریکہ اور جاپان بھی ڈیفالٹ کر گئے تھے۔ یعنی حکومت کے ذمہ داران بھی اپنے غیر سنجیدہ بیانات سے صورتحال کو مزید بگاڑ رہے ہیں اور عوام کی سمجھ سے بالا ہے کہ کس کا یقین کریں۔ میری سمجھ سے باہر ہے کہ آرمی چیف کی ملک کی کاروباری شخصیات سے ملاقات اور ایسے مصنوعی دلاسوں کا مقصد کیا ہے جبکہ ان کے وزیر دفاع ڈیفالٹ کا اعتراف کر چکے ہیں۔ آرمی چیف کے معیشت کے حوالے سے بیان سے ایک بات تو ظاہر ہے کہ ہماری تاجر برادری، سرمایہ دار اور صنعتکار سویلین پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں اس لیے انہیں بہتر معیشت کی یقین دہانی کے لیے وردی اور چھڑی کا استعمال کیا گیا۔ جبکہ اصل میں معاشی صورتحال اتنی خراب ہے کہ اس طرح کے اقدامات سے بہتری
کے بجائے بے یقینی مزید بگڑتی ہے۔ ٹھوس اقدامات کے بجائے آخر ہم ایسے مصنوعی اقدامات سے کس کو دھوکہ دے رہے ہیں اور کب تک دیتے رہیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ غیر ملکی قرض بڑھ رہا ہے، ایل سیز کھل نہیں رہیں، ڈالر تمام حدیں پھلانگ گیا ہے اور رکنے کا نام نہیں لے رہا، پٹرول ڈیزل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، انڈسٹری بند ہو رہی ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر دن بدن گھٹتے جا رہے ہیں روپے کی قیمت دن بدن ڈوبتی جا رہی ہے جبکہ مہنگائی کا جن بے قابو ہو رہا ہے۔ لیکن ہم کوئی ٹھوس قدم اٹھانے کے بجائے اپنے اپنے نیرو کی بانسری سننے میں مصروف ہیں۔ یاد رہے ایک وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھی معیشت کی بہتری کے حوالے سے ٹویٹ کیا تھا جس کے بعد کی صورتحال سب کے سامنے ہے۔ میری رائے ہے کہ جس کا جو کام ہے اس کو وہی کرنا چاہیے اور پرائے پھڈے میں ٹانگ نہیں اڑانی چاہیے۔ اگر خدانخواستہ آرمی چیف کے بیان کے بعد بھی معیشت بہتر نہ ہوئی تو پھر ہم کس کا کندھا استعمال کریں گے۔
دیکھا گیا ہے کہ جب بھی کوئی ملک، ادارہ یا فرد مالی مشکلات کا شکار ہوتا ہے تو وہ اپنے ضروری اخراجات پر کٹ لگاتا ہے اور غیر ضروری اخراجات یکسر ختم کر دیتا ہے لیکن ہماری حکومت صرف اور صرف نمائشی اقدامات پر اکتفا کر رہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ معیشت کی بُری حالت کی وجہ سے ہم غیر ضروری اخراجات پر مصنوعی کٹ لگانے کے بجائے سخت اقدامات اٹھاتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ کابینہ کی تعداد 100 تک پہنچ گئی ہے لیکن اس میں کوئی کمی نہیں کی گئی۔ ان کے اخراجات میں رسمی کمی کی گئی جس سے حالات بہتر نہیں ہوں گے۔
ہماری سٹیل ملز، ریلوے اور پی آئی اے سمیت کئی بڑے اداروں کی پیداوار صرف خسارہ ہے جبکہ ان کے افسران کے اللوں تللوں اور غیر پیداواری اخراجات میں کوئی کمی نہیں آئی۔ ہمارے حکمرانوں، وزرا، ججوں، فوجی افسران اور بیوروکریسی کے محلات اور سہولیات ہی دیکھ لیں کیا انہیں دیکھ کر ہم پر کوئی یقین کرے گا کہ ہم اقتصادی بدحالی کا شکار ملک ہیں؟ یقیناً ہم دفاعی بجٹ پر سمجھوتا نہیں کر سکتے لیکن فوج کے غیر پیداواری اخراجات پر کٹ لگا سکتے ہیں۔ بڑے بڑے گورنر ہاؤسز، جی او آرز، منسٹرز انکلیوز اور وزرائے اعلیٰ ہاؤسز کی تعمیر، رقبہ اور اخراجات دیکھ کر ہمارے سر شرم سے جھک جاتے ہیں لیکن ہم ان پر کٹ لگانے کے بجائے کشکول بڑھاتے جا رہے ہیں۔
دنیا بھر میں سرکاری رہائش گاہیں سکڑ رہی ہیں۔ برطانیہ میں آپ کو 10 ڈاؤننگ سٹریٹ (وزیر اعظم) سے لے کر چیف کمشنر تک اور ڈپٹی سیکرٹری سے ڈپٹی وزیراعظم تک سب افسر اور عہدیدار دو دو تین تین کمروں کے فلیٹس میں رہتے دکھائی دیں گے۔ امریکہ میں وائٹ ہاؤس دیکھیں دنیا کا سب سے طاقتور صدارتی محل پنجاب کے گورنر ہاؤس سے چھوٹا ہے۔ جاپان میں تو وزیراعظم ہاؤس سے سے ہے ہی نہیں۔ یہ بڑی بڑی مملکتوں کے سربراہان کی صورت حال ہے۔ سرکاری ملازم، بیورو کریٹ، اعلیٰ افسر اور عہدیداران تو آپ پورا یورپ پھریں آپ کو یہ لوگ عام بستیوں کے فلیٹوں میں عام شہریوں کی طرح رہتے نظر آئیں گے۔ ان کے گھروں میں لان ہوں گے، ڈرائیو وے اور نہ ہی لمبے چوڑے نوکر لیکن یہاں آپ ایک ضلع سے دوسرے ضلع کا دورہ کر لیں آپ کو تمام بڑی عمارتوں، تمام بڑے محلات میں ضلع کے ”خادمین“ فروکش نظر آئیں گے۔ خلقت خدا مر رہی ہے اور ان کے حکمران اور افسران ٹیکسوں کی کمائی پر پلنے والے باغوں میں جھولے ڈال کر بیٹھے ہیں۔ پاکستان سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ممالک کے حکمرانوں کا رہن سہن دیکھیں اور ان سے اپنا موازنہ کریں تو ہمیں ان سے بھیک مانگنے کے بجائے ان کی مدد کرنی چاہیے۔ لیکن ہم نے اس کا حل نکالنے کے بجائے بھیک مانگنے کے نت نئے طریقے آزما رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ علامتی طور پر ہی سہی بڑے بڑے رہائشی مینشز اور خسارے میں چلنے والے اداروں کی نیلامی کر کے ان سے حاصل ہونے والی رقم سے خسارے میں کسی حد تک کمی لے آتے۔ لیکن یہ خسارہ کم کرنے کے لیے ہم نے آئی ایم ایف کے دباؤ پر عام آدمی پر ٹیکسوں کی بھرمار کر دی ہے، صنعتیں اور کاروبار تباہ کر دیا، بجلی مہنگی کر دی، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھا دیں، اشیائے خور و نوش کی قیمتیں آسمان پر پہنچا دیں لیکن نام نہاد اشرافیہ کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں۔
کمشنر سرگودھا کی رہائش گاہ 104 کنال پر محیط ہے۔ یہ پاکستان میں کسی سرکاری ملازم کی سب سے بڑی رہائش گاہ ہے۔ اس کی نگہداشت، مرمت اور حفاظت کے لیے درجنوں ملازم ہیں۔ دوسرے نمبر پر ایس ایس پی ساہیوال کی کوٹھی آتی ہے اس کا رقبہ 98 کنال ہے۔ ڈی سی او میانوالی کی کوٹھی کا سائز 95 کنال اور ڈی سی او فیصل آباد کی رہائش 92 کمال پر تعمیر شدہ ہے۔ 2 ہزار 6 سو 6 کنال پر مشتمل ان رہائش گاہوں کی نگہداشت کے لیے 30 ہزار ڈائریکٹ اور ان دائریکٹ ملازمین ہیں۔ یہ صرف ایک جھلک ہے جبکہ ہمارے ملک کی مقدس گائیں جن کا ذکر بھی نہیں کر سکتے وہ ان سے بھی میلوں آگے ہیں۔ ہم اس دن تمام قرضوں سے نجات حاصل کر سکتے ہیں جس دن ہمارے حکمران، اشرافیہ، بیوروکریسی، عدلیہ، مسلح افواج، سرمایہ دار، صنعتکار اور سیاستدان دل سے تہیہ کر لیں ورنہ ہم یوں ہی کشکول لیے پھرتے رہیں گے۔
قارئین کالم کے بارے اپنی رائے 0300-4741474 پر وٹس ایپ کر سکتے ہیں۔
سونے کا کشکول……
11:16 AM, 9 Mar, 2023