حکمران اتحاد میں عام انتخابات، مہنگائی، مشترکہ پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لینا،ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے کچھ بھی ٹھیک نظر نہیں آ رہا،پیپلز پارٹی کے مدارالمہام آصف زرداری تو واشگاف الفاظ میں کہہ چکے کہ وہ پی ڈی ایم کا نہیں وفاقی حکومت کا حصہ ہیں،بلاول کو مردم شماری پر تحفظات ہیں،ن لیگ فوری الیکشن نہیں چاہتی،سپریم کورٹ کے حکم کے بر عکس پنجاب اور کے پی کے میں الیکشن کرانے کا کوئی موڈ دکھائی نہیں دیتا،عام الیکشن کو بھی مؤخرکرنے کی خواہش کا برملا اظہار کیا جا چکا ہے،پیپلز پارٹی اور جے یو آئی بروقت الیکشن کے حق میں ہیں،عام خیال تھا جوتیوں میں دال الیکشن شیڈول کے بعد بٹے گی جب مشترکہ امیدوار لانے کا موقع آئے گا،ٹکٹوں کی تقسیم ہو گی،سامنے کا منظر یہ ہے کہ پنجاب پرن لیگ سندھ پر پیپلز پارٹی بلا شرکت غیرے غلبہ کی خواہشمند ہیں،جے یو آئی کے پی کے پر نظریں جمائے بیٹھی ہے،اندر کی بات مگر یہ ہے کہ پیپلز پارٹی سندھ کے علاوہ پنجاب میں بھی حصہ چاہتی ہے مرکز میں بھی واضح نمائندگی کا مطالبہ ہے،ن لیگ مرکز اور پنجاب پر راضی ہے سندھ پیپلز پارٹی کو دینے کو تیار ہے،کے پی کے میں البتہ ن لیگ اور پی پی پی دونوں حصہ بقدر جثہ کی طلبگار ہیں،بلوچ جماعتیں بلوچستان کی حکومت اور وفاق میں نمائندگی چاہتی ہیں،اے این پی پہلے سے ہی ناراض ہے وہ کے پی کے،بلوچستان اور وفاق میں شراکت پر مصر ہے،ایم کیو ایم سندھ اور مرکز میں وزارتوں پر نظریں جمائے بیٹھی ہے مگر ان سے زیادہ کراچی کی مقامی حکومت پر اس کی نگاہ ہے جس میں پیپلز پارٹی کے علاوہ اب جماعت اسلامی بھی رکاوٹ ہے۔
اس صورتحال میں مہنگائی کے جن کا بے قابو ہونا،غربت میں اضافہ،بیروزگاری،معاشی بحران وفاقی حکومت کیلئے چیلنج ہیں،یہ وہ مسائل ہیں جن کو چٹکی بجا کر حل نہیں کیا جا سکتا،اس کیلئے وقت،وسائل،قومی اتحاد کی اشد ضرورت ہے مگر حکومتی اتحاد کی ہنڈیا بیچ چوراہے راجن پور کے ضمنی الیکشن میں پھوٹ گئی جب قومی اسمبلی کی خالی نشست پر ضمنی الیکشن کیلئے پی ڈی ایم مشترکہ امیدوار نہ لا سکی،پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے امیدواروں کو پڑنے والے ووٹوں سے 15ہزار ووٹ زیادہ لیکر تحریک انصاف کے امیدوار نے کامیابی حاصل کی،تحریک انصاف کی خالی نشستوں پر الیکشن کا ن لیگ نے بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا،پیپلز پارٹی نے حصہ لینے کا عزم ظاہر کیا،وزیر اعظم اتحادی جماعتوں کی قیادت کو فون کر کے الیکشن میں حصہ نہ لینے کا کہتے رہے مگر ایم کیو ایم شہری سندھ کا ڈومین کسی دوسری جماعت کے حوالے کرنے پر آمادہ نہ تھی وہ تو تحریک انصاف کی درخواست پر ان کے ارکان کے استعفوں کے نوٹیفیکیشن کو اعلیٰ عدلیہ نے منسوخ کر دیا جس سے حکومتی اتحاد رسوائی سے بچ گیا۔
دوسری طرف سابق وزیراعظم عمران خان فوری الیکشن کیلئے دباؤ ڈال رہے ہیں حالات بتا رہے ہیں کہ وزیر اعظم شہباز شریف تا دیر یہ دباؤبرداشت نہ کر سکیں گے، وہ جانتے ہیں کہ اگر کوئی بھی اتحادی جماعت الگ ہوئی تو ان کے اور حکومت کیلئے مشکلات بڑھ جائیں گی، جب کہ بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے ساتھ بھی سب ٹھیک نہیں ہے۔مسلم لیگ ن کے اندر بھی معاملات تسلی بخش نہیں،مفتاح اسمعٰیل کا لب و لہجہ وزارت خزانہ سے ہٹائے جانے کے بعدتبدیل ہو چکا ہے اور وہ اپنی ہی حکومت کے ناقد بن کر سامنے آئے ہیں،شاہد خاقان عباسی نالاں ہیں،پارٹی میں نواز اور شہباز حامی واضح ہیں،مگر نواز شریف اپنی سزا کی مستقل معطلی کے بغیر واپس آنے پر آمادہ نہیں اس لئے انہوں نے مریم کو اپنا جا نشین بنا کر بھجوا دیا،پارٹی کی سینئر قیادت مریم کی قیادت کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔
ملک مجموعی طور پر اس وقت سنگین نوعیت کے بحرانوں کی زد میں ہے ان بحرانوں سے نبرد آزما ہونے کیلئے جس سنجیدگی درد مندی اور معاملہ فہمی کی ضرورت ہے وہ حکومتی صفوں میں دکھائی نہیں دے رہی،سب مانتے ہیں کہ اس کیلئے شفاف انتخابات ضروری ہیں،نئی حکومت بھاری عوامی مینڈیٹ لیکر آئے اور مشکل فیصلوں کیساتھ سسکتے بلکتے عوام کو ریلیف بھی دے،مگر عام انتخابات کی کیا بات کی جائے حکومت تو دو صوبوں میں الیکشن کرانے سے خوفزدہ ہے،خوف شکست کا ہے جو دیوار پر لکھی ہے،اس کے باوجود کہ الیکشن کمیشن کھل کر پی ڈی ایم کی حمایت کر رہا ہے مگر ن لیگ کو انتخابی میدان میں اترنے میں تامل ہے،بظاہر نیوٹرل رہنے کے دعوے پر قائم اسٹیبلشمنٹ کی درپردہ پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کو حمایت حاصل ہے مگر عوام کا عمران خان کے ساتھ ہونا اب کوئی خفیہ راز نہیں،ضمنی الیکشن کے نتائج اس کی تائید کرتے ہیں کہ عمران خان کا سحر پوری طرح عوام کو اپنی گرفت میں لئے ہوئے ہے،الیکشن آج ہوں 2023میں یا مزید تاخیر کی جائے مگر انتخابی میدان میں عمران خان کی کامیابی کو روکنا اتحادیوں کے بس میں نہیں۔پے در پے مقدمات کے اندراج،بار بار گرفتار کرنے کی ناکام کوشش،اتحادیوں کی جانب سے الزام تراشی اور پراپیگنڈہ کے باوجود عمران خان کی مقبولیت میں کمی کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے،رائے عامہ کے ایک تازہ ترین سروے کے مطابق وہ مقبولیت میں اب بھی ایک نمبر لیڈر ہیں،میاں نواز شریف اور بلاول بھٹو ایک جیسی مقبولیت کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں، مریم نواز البتہ عوام کے دلوں میں گھر کرتی نظر آ رہی ہیں۔
عام انتخابات کے تناظر میں قومی سیاست کاجائزہ لیا جائے تو سیاست واضح دو دھڑوں میں تقسیم دکھائی دیتی ہے ایک طرف حکومتی اتحاد ہے جس میں 14کے قریب جماعتیں شامل ہیں دوسری جانب تنہا عمران خان ہیں،حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کی دیرینہ دشمنی ابھی قصہ ماضی نہیں ہوئی بلکہ کبھی کبھی سر اٹھا لیتی ہے جس سے بعض اوقت تو اتحاد کے تسبیح کے دانوں کی طرح بکھرنے کا گمان ہوتا ہے،کہتے ہیں سندھ اب بھی پیپلز پارٹی کا ہے مگر پارٹی قیادت اب اس زعم میں مبتلا نہیں اور اسے سندھ میں بھی مضبوط الیکٹ ایبلز کی تلاش ہے،سندھ کی حد تک پیپلز پارٹی مخالف جماعتیں اگر ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو گئیں تو الیکشن جیتنا پیپلز پارٹی کیلئے آسان نہیں ہو گا،بلاول بھٹو پنجاب میں قومی اور صوبائی کوٹہ ووٹوں کے تناسب سے چاہتے ہیں مگر ن لیگ ان کو اکاموڈیٹ کرنے کو تیار نہیں،پیپلز پارٹی پنجاب میں مضبوط امیدواروں کی تلاش میں ہے اور انتخابی شیڈول کا اعلان ہوتے ہی اس کی فرمائشوں کی فہرست سامنے آئے گی جس کے بعد حکومتی اتحاد کا قائم رہنا شاید صرف عمران خان کو اقتدار سے دور رکھنے کیلئے باقی رہے تو رہے ورنہ ان میں ملکی مسائل حل کرنے کیلئے اتحاد و یکجہتی کا فقدان ہی رہے گا،یہ بات بھی خفیہ راز نہیں کہ حکومتی اتحاد بھی عمران خان کے خوف کا ہی نتیجہ ہے،الیکشن سے فرار بھی اسی سوچ کے باعث ہے مگر الیکشن سے فرار اس لئے ممکن نہیں کہ یہ آئینی تقاضا ہے اور ملک کی اعلیٰ عدلیہ آئین کو پامال کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔