یہ رواں صدی کی آٹھویں دہائی کے ابتدائی سال تھے جب فیصل آبادسے میرے محترم مولاناتاج محمودمرحوم نے مجھے اپنے ساتھ لاہورچلنے کے لیے کہا۔سفرکا مقصد جسٹس رفیق تارڑ سے ملاقات تھی ۔سبب یہ تھاکہ آئین پاکستان میں اقلیت قراردیے جانے والے ایک گروہ کے ارکان نے جنوبی افریقہ کی عدالت میں پاکستان کی دستورسازاسمبلی کے فیصلے کے خلاف مقدمہ دائرکردیاتھا۔مولانامرحوم اس مقدمے میں آئینی معاونت کے لیے جسٹس رفیق تارڑ سے ملناچاہتے تھے ۔معلوم نہیں اس سے پہلے ان کا جسٹس صاحب سے کیا تعلق تھا ۔ان دنوں جسٹس صاحب جی اوآر ون میں رہائش پذیرتھے، مکان نمبر غالبا ً۱۱ ۔گاف روڈ تھا۔ہم لاہور پہنچے تو سیدھے جسٹس صاحب کے گھر پہنچے ۔میں نے اس روزانھیں پہلی بار دیکھا ۔ایک بے ریش ،درازقامت ،متواضع شخصیت ۔جوانی کا رنگ روغن ابھی چہرے پر چمک رہاتھا۔یہ بہت بعدکی بات ہے جب ان کے چہرے پر ریش مقصر جلوہ گر ہوئی اور پھر وہ ریش درازہوگئے ۔وہ ہمارے لیے چائے کی ٹرالی لے کر آئے تو ٹرالی میں سے ایک ایک شے اٹھاکر پیش کرنے لگے ۔چائے بھی خودبناکر پیش کی۔ مولانامرحوم نے بڑی تفصیل اور ترتیب کے ساتھ معاملے کی نوعیت ان پر واضح کی جیساکہ مولانا کی شخصیت کا خاصہ تھا ۔وہ بڑے تحمل کے ساتھ معاملے کو مختلف نکات میں تقسیم کرتے اور پھرایک ایک نکتے کی صراحت کرتے جاتے۔ اندازِ ِبیان کی سنجیدگی اور متکلم کا اخلاص سننے والے کو ان کی بات کی تکمیل تک سماعت پر مائل رکھتا۔مولاناکی زندگی چونکہ طبقہء علمامیں گزری تھی اس لیے بالعموم بات کرتے ہوئے وہ بے ساختہ اپنے مخاطب کو ’’مولانا‘‘ کہہ کر خطاب کرنے لگتے ۔جسٹس صاحب کے ساتھ بات کرتے ہوئے بھی ان کی عمر بھر کی اس روش کا اظہارہوتااور وہ انھیں ’’مولانا‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے لیکن جلد ہی ’’جسٹس صاحب ‘‘کہہ کراپنی تصحیح کرلیتے تھے ۔
ملاقات دیرتک جاری رہی ،یہ ملاقات بہت خوش گوارتھی ۔جسٹس صاحب نے بہت احترام کے ساتھ تعاون کاوعدہ کیا۔مولاناکے ساتھ ان کا رویہ ایک سعادت مند شاگردکا ساتھا۔انھوںنے مولاناکوہائی کورٹ میں کسی سے ملنے کے لیے کہااورہم ان سے اجازت کے خواہاں ہوئے۔ وہ ہمیں گاڑی تک چھوڑنے کے لیے آئے۔ہم ان کی رہائش گاہ سے سیدھے ہائی کورٹ پہنچے۔میں گاڑی میں بیٹھارہااور مولانااندرچلے گئے ۔مولاناکوواپس آنے میں کچھ دیرہوگئی۔لاہورسے دوررہتے ہوئے جب کبھی لاہورآناہوتاتوبہت سے حضرات سے ملنے کا خیال ہوتاتھالیکن اس ایک روزہ دورے میں سب لوگوں سے ملنے کی خواہش پوری نہیں ہوسکتی تھی ۔اس زمانے میں موبائل ٹیلی فون تو تھے نہیں ،ارضی فونLand Line بھی بہت کم ہوتے تھے اور دوسرے شہر کال کرنا بھی ایک مرحلہ ہوتاتھا،اس لیے لاہور آنے پر اگرملاقات ممکن نہ ہوتی تو ٹیلی فون پر بات کرلینابھی غنیمت سمجھاجاتاتھا۔مجھے یادہے کہ ہماری گاڑی لاہورہائی کورٹ کے اندرکھڑی تھی۔ میں اپنے ڈرائیورکو بتاکر باہر نکلااورسڑک عبورکرکے مال روڈ کی دوسری جانب جاپہنچا۔خیال تھاکہ یہاں کسی پبلک کال آفس سے ڈاکٹرسیدعبداللہ صاحب کو فون کیاجائے۔ڈاکٹر سیدعبداللہ اورینٹل کالج کے شعبہ اردوسے سبک دوشی کے بعد پنجاب یونی ورسٹی میں اردودائرئہ معارف اسلامیہ کے سربراہ تھے۔ میرا ان سے مراسلتی رابطہ تھا اور دوتین بار ملاقات کا موقع بھی مل چکاتھا۔ پی سی اوتو نہ ملاالبتہ مال روڈ کے تاریخی گرجے کے قریب ایک دکان سے ،جس میں سڑک کی جانب شیشہ لگاہواتھا، میںنے ڈاکٹر سیدعبداللہ صاحب کو فون کیا۔ خوبیِ قسمت کہ ڈاکٹر صاحب سے بات بھی ہوگئی۔ میںنے انھیں ڈاک سے ایک رسالہ بھیجاتھا۔ انھوںنے اس کے ملنے کی اطلاع دی، شکریے کا خط لکھنے کے ارادے کاا ظہار کیا اور فون کرنے کا شکریہ بھی اداکیا۔تارڑصاحب کی دوسری یادبھی مولاناتاج محمودہی سے منسلک ہے۔ مولانامرحوم جب تک حیات رہے ملاقاتوں کے علاوہ ان سے میرامراسلتی رابطہ بھی قائم رہا۔نسل نوکے لیے تواس زمانے کے خط کتابت کے کلچرکو سمجھنا بھی دشوارہے۔خط لکھنا اس کے جواب کا انتظار کرنا، خط ملنے پر فرط ِشوق سے اسے پڑھنا،سنبھال کر رکھنا وغیرہ ایسی مسرتیں تھیں جن کا کوئی بدل نہ تھا۔ مولانانے اپنے ۱۰؍اکتوبر ۱۹۸۲ء کے خط میں لکھا:
’’نزلہ بخارمیں مبتلاہوں اورپھراس حالت میں جمعرات کو گکھڑ کا سفر کرناپڑا۔جسٹس رفیق تارڑ کے بھتیجے اورنسیم صاحب (ایس پی جھنگ)کے چھوٹے بھائی کی وفات کے سلسلہ میں جاناضروری تھا۔وہاں غم کیا، قیامت کا ماحول تھا۔تارڑصاحب کے بھائی کا ایک ہی بچہ تھا لاہور انجینئرنگ کالج کاطالب علم تھااورنسیم صاحب کا چھوٹابھائی میڈیکل کے سال سوم کا گولڈمیڈلسٹ طالب علم تھا۔اناللہ واناالیہ راجعون۔ پہلے ہی طبیعت خراب تھی سفراورغم کے ماحول نے چارپائی پر ڈال دیا، اب بھی بخارسے نبرد آزما ہوں‘‘۔
مولانا کی نسبت سے جسٹس رفیق تارڑ صاحب کی تیسری یادصاحبزادہ طار ق محمود کے جنازے میں ہونے والی ملاقات ہے ۔طارق مرحوم مولاناکے اکلوتے فرزندتھے ۔ان کے جنازے میں شرکت کے لیے راقم لاہور سے فیصل آبادپہنچاتھا۔ میںنے دیکھاکہ تارڑ صاحب مجھ سے پہلے وہاں پہنچ چکے تھے ۔مولاناتاج محمود مرحوم کی مسجد، جامع مسجد محمود میں مولانامحمداشرف ہمدانی مرحوم بڑی اپنائیت سے ملے۔ انھوں نے غم کے اس موقع پر خطاب کیااور ہم نے تارڑ صاحب کے ساتھ یہ خطاب سنا ۔مولانامحمداشرف ہمدانی، مولاناتاج محمودکے قریبی دوستوں میں تھے۔ اب ان کے فرزنداورراقم کے عزیزدوست ڈاکٹرحامداشرف ہمدانی کی صورت میں ان کی یاد تازہ رہتی ہے۔ڈاکٹر حامداشرف ہمدانی ماشاء اللہ خود عربی کے فاضل ،متبحر عالم، پنجاب یونی ورسٹی کے شعبہ عربی کے سربراہ اور استاذالاساتذہ ہیں ۔
تارڑ صاحب سے ہماری یاد اللہ کا ایک سبب مولاناظفرعلی خان سے ہماری باہمی دلچسپی تھی۔ غالباً سنہ چھیانوے میں لاہورپریس کلب میں مولاناظفرعلی خان کی یاد میں ایک بڑی تقریب منعقدکی گئی۔ راقم الحروف نے اس تقریب کی میزبانی کی۔ اس تقریب میں مجید نظامی صاحب اوردوسرے بہت سے مقررین کے ساتھ رفیق تارڑ صاحب بھی تھے۔ راقم کی کمپیئرنگ کو سراہتے ہوئے انھوں نے ایک کاغذ پر اپنانام اور اپنا فون نمبر لکھ کردیا تاکہ ہمارے درمیان رابطہ رہے۔ راقم اپنی مصروفیات کے باعث کبھی ان سے ملنے نہ جاسکا تاہم باہمی خوش خیالی کا سلسلہ قائم رہا یہاں تک کہ ایک دن وہ صدرِپاکستان بن گئے جس کے بارے میں وہ کہاکرتے تھے کہ پھراللہ مجھے وہاں لے گیا جہاں جانے کا امکان تورہاایک طرف ،میںاس کے بارے کبھی سوچ بھی نہیں سکاتھا۔صدارت کے سارے زمانے میں راقم نے کبھی رابطے کی کوشش نہیں کی البتہ جب صدارت، قصہ ماضی بن گئی تو ان سے پرانارابطہ بحال ہوا۔ اس کاسبب فرزندعزیز محمدحذیفہ کی ان سے ملاقات کی خواہش ہوئی ۔ان دنوں وہ بیمارتھے، ملاقات تو نہ ہوسکی البتہ انھوںنے کئی بار ٹیلی فون پر راقم کو یاد فرمایا۔ ٹیلی فونوں پر بہت باتیں ہوتی رہیں۔ ہماری گفتگو کا مرکزی موضوع ان کے ماضی کی یادیںاور مولاناظفرعلی خان کی شاعری رہا۔انھوںنے ایک بارمیرے استفسارپرمولاناظفرعلی خان سے ہونے والی اپنی ملاقات کی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایاکہ مولاناکی زندگی کا آخری زمانہ تھا، وہ مری میں مقیم تھے ۔ہم کچھ نوجوانوں نے پوسٹ آفس چوک سے مولاناکو دیکھا۔ ایک ملازم انھیں پہیوں والی کرسی پر بٹھاکراس رہائش گاہ سے باہر لے آیاتھاجہاں انھیں ان کے فرزند اختر علی خان نے ٹھہرا رکھا تھا۔ ہم نوجوان مولاناکی خدمت میں حاضر ہوئے اورسلام عرض کیا۔مولاناکی آنکھیں دیکھتی تھیں لیکن قویٰ مضمحل ہوچکے تھے ۔اتنے میں گورنرپنجاب سردار عبدالرب نشتروہاں سے گزرے ۔ان کی رفتار تیزتھی اس لیے لمحے بھرکو انھیں اندازہ ہی نہیں ہواکہ راستے میں مولاناظفرعلی خان بھی تھے۔ جیسے ہی انھیں اس بات کا ا حساس ہواوہ فوراً پلٹے اور واپس آکر مولاناکے گھٹنوں کو چھوا،سلام کیااورعرض پردازہوئے کہ’’ مولانامیرے لائق کوئی خدمت ہوتوارشادفرمائیں‘‘ …مولانانے بے بسی کی سی کیفیت میں ان کی جانب دیکھااورصرف ایک لفظ کہا’’دعا‘‘…ہم نوجوان یہ سارامنظردیکھ رہے تھے ۔اسی طرح انھوںنے سیدعطاء اللہ شاہ بخاری صاحب سے اپنی ملاقاتوں کا حال سناتے ہوئے بتایاتھاکہ ایک بار میںنے انھیں جلسے کے لیے گکھڑ بلایا لیکن وہ حسب پروگرام پہنچ نہ سکے ۔مجھے معلوم تھاکہ وہ گوجرانوالہ آئے ہوئے ہیں۔ میں ٹانگہ لے کر گوجرانوالہ پہنچا تو شاہ صاحب دفتر احرارمیں ایک چارپائی پر قمیص اتارے بیٹھے تھے ۔میںنے سلام کیا تو وہ بڑی شفقت سے ملے ،وہ مجھے بیٹاکہاکرتے تھے ۔میںنے بتایا کہ گکھڑ میں لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ وہ بالکل بھول چکے تھے کہ انھوںنے اس جلسے سے خطاب کا وعدہ کررکھاتھا،اسی وقت تیارہوگئے۔ میںسالم ٹانگہ لے کر آیاتھا،اسی وقت انھیں ٹانگے میں بٹھایااور اقلیم خطابت کے اس بادشاہ کو لے کر گکھڑ پہنچا۔ شاہ صاحب نے جلسے سے خطاب کیااور لوگوں کے دل جیت لیے۔تارڑ صاحب کو مولاناظفرعلی خان کا بہت سا کلام زبانی یادتھا،راقم کے ساتھ گفتگومیں ہم دونوایک دوسرے کو خوب خوب مولاناکا کلام سنایاکرتے تھے ۔انھوںنے گکھڑ کا یہ واقعہ سناکربڑی لگن کے ساتھ مولاناظفرعلی خان کے اشعارپڑھے ؎
اک چست فقرہ کس کے بخاری نے کس دیا
ڈھیلا پن آگیا جو مسلما ں کی چول میں
حریتِ ضمیر کا ڈنکا بجا دیا
ہندوستاں کے عرض میں اور اس کے طول میں
کانوں میں گونجتے ہیں بخاری کے زمزمے
بلبل چہک رہا ہے ریاض ر سول میں