لاہور: سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے میڈیکل کالجز میں فیسوں کےاضافے پر ازخود نوٹس کی سماعت کی۔ لوگ کہتے ہیں بابا رحمتے ایسے ہی لگا رہتا ہے مجھے کسی کی پروا نہیں جو مرضی کہتا ہے کہتا رہے۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بابے کا تصور کہاں سے لیا آج بتاتا ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ بابے کا تصور اشفاق احمد سے لیا ہے کیونکہ بابا وہ ہے جو لوگوں کیلئے سہولتیں پیدا کرتا ہے ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ میڈیکل کالجز میں کیا سہولیات دی جاتی ہیں اور ہر معاملے کو الگ الگ دیکھیں گے جبکہ کسی میڈیکل کالج کو بند کرنے نہیں جا رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ فیسیں اتنی نہ بڑھائی جائیں کہ لوگوں کی جیبیں کٹ جائیں اور ایجوکیشن کاروبار ہو سکتا ہے لیکن میڈیکل کی تعلیم ایسی نہیں کہ اس پر فیسیں لگائی جائیں۔ پی ایم ڈی سی کو اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایسے ڈاکٹرز بھی آ رہے ہیں جنہیں بلڈ پریشر چیک کرنا بھی نہیں آتا اور کل 5 بچے مرگئے ان کا ذمہ دار کون ہے۔ انکوائری ہو گی تو سارا ملبہ دھوپ پر ڈال دیا جائے گا۔
مزید پڑھیں: وزیراعظم کی تقرری کیخلاف درخواست سندھ ہائیکورٹ میں سماعت کیلئے مقرر
عدالت نے میڈیکل کالجز کے اکاؤنٹس کا آڈٹ چارٹرڈ فرم سے کروانے کا حکم دیا جس کے اخراجات کالج برداشت کریں گے۔
سماعت کے دوران ہی چیف جسٹس پاکستان لاہور کے سروسز اسپتال پہنچ گئے اور وہاں دی جانے والی سہولتوں کا جائزہ بھی لیا۔
جسٹس ثاقب نثار بعد میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی بھی گئے اس موقع پر ان کے ہمراہ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس یاور علی بھی تھے۔
چیف جسٹس نے اسپتال میں مریض اور لواحقین سے گفتگو کی اور طبی عملے سے سہولتوں سے متعلق استفسار بھی کیا۔ مریضوں نے چیف جسٹس کے سامنے شکایتوں کے انبار لگا دئیے۔
یہ خبر بھی پڑھیں: زینب کے قاتل عمران کے اہلخانہ مقتولہ کے لواحقین کو ہراساں کرنے لگے
اس موقع پر ایک خاتون نے چیف جسٹس پاکستان کے سامنے ہاتھ جوڑ کر التجا کرتے ہوئے بتایا کہ میری بچی کا مرض سرگودھا والوں نے خراب کر دیا ہے،ہم بہت غریب ہیں اور علاج کیلئے ہماری مدد کی جائے۔
چیف جسٹس پاکستان نے خاتون کے سر پر ہاتھ رک کر اسے تسلی دی اور کہا کہ آپ کی بچی کے علاج کے اخراجات ہم برداشت کریں گے۔
نیو نیوز کی براہ راست نشریات، پروگرامز اور تازہ ترین اپ ڈیٹس کیلئے ہماری ایپ ڈاؤن لوڈ کریں