اسلام آباد: وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے مالی سال 24-2023 کا 145 کھرب حجم کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دیا ہے۔ اسپیکر راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے بجٹ پیش کیا ۔16 گریڈ تک تنخواہوں میں 35 فیصد جبکہ 16 گریڈ سے اوپر کے تمام سرکاری ملازمین کی 30 فیصد تنخواہ بڑھائی گئی ہے۔ مزدور کی کم از کم تنخواہ 32 ہزار ہوگی جبکہ پنشن بھی بڑھا دی گئی ہے۔
وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے کہا کہ بجٹ پیش کرنے کا اعزاز حاصل کرنے پر خدا کا شکر گزار ہوں، مالی سال 24-2023 کے بجٹ کے اعداد و شمار پیش کرنے سے پہلے 2017 میں نواز شریف کی حکومت اور 2022 میں پی ٹی آئی کی نااہل حکومت کے بجٹ کا تقابلی جائزہ پیش کروں گا۔
سرکاری ملازمین اور پنشنرز کے لیے ریلیف اقدامات کیے گئے ہیں۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ایڈہاک ریلیف الاؤنس کی صورت میں1 سے 16 گریڈ تک 35 فیصد اضافہ اور گریڈ 17-22 کے ملازمین کی تنخواہوں میں 30 فیصد اضافہ کیا گیا۔
ڈیوٹی سٹیشن سے باہر سرکاری سفر اور رات کے قیام کے لئے ڈیلی الاؤنس اور مائلیج الاؤنس میں اضافے کی تجویز دی گئی ہے۔ سرکاری ملازمین کی کم از کم پنشن 10 ہزار سے بڑھاکر بارہ ہزار روپے کردی گئی ۔
اسلام آباد کی حدود میں کم سے کم اجرت کو 25 ہزار سے بڑھا کر 30 ہزار روپے کر دیا گیا۔ ای او بی آئی کی پنشن کو 85 سو سے بڑھا کر دس ہزار روپے اور سرکاری ملازمین کی پنشن میں ساڑھے 17 فیصد اضافہ کرنے کی تجویز ہے۔
انہوں نے کہا کہ مالی سال 17-2016 میں پاکستانی معیشت کی شرح نمو 6.1 فیصد تک پہنچ چکی تھی۔ مہنگائی 4 فیصد تھی، غذائی اشیا کی مہنگائی صرف 2 فیصد تھی ۔ پالیسی ریٹ ساڑھے 5 فیصد، اسٹاک ایکسچینج جنوبی ایشیا میں نمبر ون اور پوری دنیا میں پانچویں نمبر پر تھی۔
انہوں نے کہا کہ اگلے مالی سال کے لیے جی ڈی پی شرح نمو کا ہدف 3.5 فیصد رکھنے کی تجویز ہے۔ معیاری بیجوں کے استعمال کو فروغ دینے کے لیے ان کی درآمد پر تمام ٹیکسز اور ڈیوٹیز ختم کر رہے ہیں۔ کان کنی کے لیے درکار مشینری، رائس مل کی مشینری اور مشین کے آلات کے لیے خام مال/ان پٹ پر کسٹمز ڈیوٹی کی چھوٹ کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) اور اس سے متعلقہ سروسز کے برآمد کنندگان کے لیے آئی ٹی آلات کی ڈیوٹی سے مستثنیٰ درآمد کی اجازت دے کر ان کی برآمدی آمدنی کے ایک فیصد کی قیمت کے برابر کرنے اور سابق فاٹا کے علاقوں سے درآمد کی گئی مشینری اور آلات پر چھوٹ میں جون 2024 تک توسیع کی تجویز ہے۔
انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ معاشرے کے غریب طبقے کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے استعمال شدہ (سیکنڈ ہینڈ) کپڑوں ، اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کے لیے اس سے منسلک آلات سے ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کرنے کی تجویز ہے۔ فلیٹ پینلز، مانیٹرز اور پروجیکٹرز کے پارٹس پر ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کر رہے ہیں۔
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ کمرشل امپورٹرز درآمد کنندگان کے لیے اشیا کی درآمد پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں 0.5 فیصد اضافہ کر رہے ہیں۔ ہیوی کمرشل وہیکلز کے نان لوکلائزڈ (سی کے ڈی) پر کسٹمز ڈیوٹی کو 10 فیصد سے کم کر کے فیصد کرنے کی تجویز ہے ۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی معیشت ترقی کی راہ پر گامزن تھی اور پاکستان 2020 تک جی-20 ممالک میں شامل ہونے والا تھا۔ پاکستانی کرنسی مستحکم اور زرمبادلہ کے ذخائر 24 ارب ڈالر کے ریکارڈ سطح پر تھے۔ بجلی کے نئے منصوبوں سے 12-16 گھنٹوں کی لوڈشیدنگ سے نجات مل چکی تھی، انفرااسٹرکچر سسٹم، روزگار کے مواقع اور آسان قرضوں جیسے عوام دوست منصوبوں کی تکمیل کی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جاچکا تھا، ملک میں مان و امان اور سیاسی استحکام تھا، ان حالات میں آناً فاناً سازشوں کے جال بچھا دیے گئے، اگست 2018 میں ایک سلیکٹڈ حکومت وجود میں آئی، اس سلیکٹڈ حکومت کی ناکام معاشی کارکردگی کے سبب پاکستان 24ویں بڑی معیشت کے درجے سے گر کر 47 ویں نمبر پر آگیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان تاریخ کے مشکل ترین مراحل سے گزر رہا ہے، خراب معاشی صورتحال کی ذمہ دار پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت ہے، اس لیے مالی سال 22-2021 تک کی معاشی صورتحال کا ایک جائزہ ایوان کے سامنے رکھوں گا۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی غلط معاشی حکمت عملی کے باعث کرنٹ اکاونٹ خسارہ 17.5 ڈالر تک پہنچ گیا اور زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے گررہے تھے، آئی ایم ایف پروگرام کی تکمیل پاکستان کے لیے اہم تھی لیکن پی ٹی آئی حکومت نے اس صورتحال کو جان بوجھ کر خراب کیا۔
اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں سبسڈی دی، ایسے اقدامات اٹھائے جو آئی ایم ایف شرائط کی صریحاً خلاف ورزی تھی، سابقہ حکومت کے وزیرخزانہ نے 2 صوبائی وزارئے خزانہ کو فون کرکے آئی ایم ایف پروگرام سبوتاژ کروانے کی کوشش کی۔
انہوں نے کہا کہ ان اقدامات سے نئی حکومت کے لیے بارودی سرنگیں بچھائی گئیں جس سے نہ صرف مالی خسارے میں اضافہ کیا بلکہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے تعلقات کو بھی نقصان پہنچایا۔
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت کی معاشی حکمت عملی کی ناکامی کا سب سے بڑا ثبوت مالی خسارے میں خطرناک حد تک اضافہ تھا، مالی سال 22-2021 کا خسارہ جی ڈی پی کے 7.89 فیصد کے برابر جبکہ پرائمری خسارہ جی ڈی پی کے 3.1 فیصد تک پہنچ گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ جون 2018 میں پاکستان کا قرضہ تقریباً 250 کھرب تھا، پی ٹی آئی کی معاشی بےانتظامی کے سبب یہ قرض مالی سال 22-2021 میں 490 کھرب تک پہنچ گیا، 4 سالہ دور میں اتنا قرض لیا گیا جو 1947 سے 2018 تک لیے جانے والے قرض کا 96 فیصد تھا۔
اسحٰق ڈار نے بتایا کہ اسی طرح قرضے اور واجبات اسی عرصے میں 100 فیصد سے بڑھ کر 300 کھرب سے 600 کھرب روپے تک پہنچ گیا۔ جون 2018 میں غیر ملکی قرضے اور واجبات 95 ارب ڈالر تھے جوکہ جون 2022 تک 130 ارب ڈالر تک پہنچ چکے تھے۔