ڈھاکہ: بنگلہ دیش میں دہائیوں کے بعد بدترین گرمی کی لہر جاری ہے۔ گرمی کی لہر میں بجلی کی طویل بندش بھی ہورہی ہے۔ اس وجہ سے ملک کے باسیوں کو شدیدمشکلات ہیں اور خاص طور پر کچی آبادیوں یعنی جھگیوں میں رہنے والے محنت کشوں کو دن میں گرمی کی لہر مار دیتی ہے اور رات میں بجلی کی طویل بندش برا حال کردیتی ہے۔ اس کی وجہ فیول کی کمی اوربجلی کا بحران ہے۔ حالیہ ہفتوں میں ملک بھر میں ایک دن میں پانچ گھنٹے تک کے بلیک آؤٹ کا سامنا کرنا پڑرہا ہے کیونکہ ملک بھر میں ہیٹ ویو کی وجہ سے بجلی کی طلب میں اضافہ ہوا ہے۔
گرمی اور درجہ حرارت بڑھنے کی وجہ سے متعدد پرائمری اور سیکنڈری سکول بھی بند کردئے گئے ہیں کیونکہ ڈھاکہ میں درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گرینڈ سے زیادہ ریکارڈ جارہا ہے۔بنگلہ دیش میٹ آفس کے مطابق 1971 کے بعد اب تک یہاں پر شدید گرمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ فارن ایکسچینچ ریزروز کی کمی کی وجہ سے بنگلہ حکومت فیول خرید نے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔بنگلہ دیش میں کوئلہ نہ ملنے پر سب سے بڑا بجلی گھر بھی بند کردیا گیا ہے۔
بنگلہ دیشی میڈیا اور عالمی خبر رساں اداروں کے مطابق زرمبادلہ کے ذخائر گزشتہ سال جنوری میں 46 ارب ڈالر سے کم ہو کر اس سال اپریل کے آخر میں 30 ارب ڈالر پر آ گئے تھے۔اس وقت بنگلہ دیش کرنسی کی گرتی ہوئی قدر کے خلاف سخت جدوجہد کر رہا ہے۔خبر رساں اداروں کے مطابق سب سے بڑے بجلی گھر کے منیجر کا کہنا ہے کہ 1,320 میگاواٹ کے حکومت کے زیر انتظام چلنے والے پاور پلانٹ کی گزشتہ ماہ ایندھن کی قلت کی وجہ سے پیداوار میں کمی بھی کر دی گئی تھی۔ایندھن کیلئے کوئلہ فراہم نہ ہونے کی وجہ سے بجلی گھر بند کرنا پڑ رہا ہے لیکن کوئلے کی کھیپ پہنچنے کے بعد پیداوار تین ہفتوں کے اندر بحال ہونے کی امید ہے۔