ٹورانٹو:کینیڈا میں ہونے والے جی سیون ممالک کی سربراہی کانفرنس میں شریک رہنماؤں نے امریکہ کے ساتھ محصولات سے جڑے معاملات سے متعلق امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بات چیت کی ہے۔
ٹرمپ اپنے اس موقف پر سختی سے زور دیتے رہے کہ امریکہ کو اس وقت اپنے یورپی اتحادیوں کے ساتھ تجارت میں نقصان ہو رہا ہے ،جی سیون ممالک کی تنظیم کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نا کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے روئیٹر ز کو بتایا کہ دوسرے رہنماؤں نے اپنے اعداد و شمار پیش کیے اور ٹرمپ نے اپنے پیش کیے۔
متوقع طور پر انہوں نے اپنا موقف تبدیل نہیں کیا، ایسا نہیں کہ وہ اس بات کو نہیں سمجھے بلکہ اس کی (امریکہ کی) داخلی وجوہات ہیں بعد ازاں کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈیو کے ساتھ ہونے والی دو طرفہ ملاقات میں صدر ٹرمپ نے مذاق میں کہا کہ کینیڈا کے وزیر اعظم نے تمام محصولات ختم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
ایک روز قبل ایک دوسرے کی تجارتی پالیسوں پر تنقید کرنے کے باوجود کینیڈا اور امریکہ کے تعلقات کو بہت اچھا قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم محصولات کو کم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں تاکہ یہ دونوں ملکوں کے لیے مناسب ہوں ، ہم نے آج کافی پیش رفت کی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ سب کچھ کیسے ہو گا۔
اس کے بعد فرانس کے صدر ایمینوئل میخواں کے ساتھ ملاقات میں ٹرمپ نے کہا کہ "کئی سالوں سے امریکہ کو یورپی یونین کے ساتھ بہت زیادہ تجارتی خسارے کا سامنا ہے اور ہم اس کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ایمینوئل اس میں بہت تعاون کررہے ہیں۔
فرانس کے صدر میخواں نے کہا کہ ان کی ٹرمپ کے ساتھ کھل کر بات چیت ہوئی ہے اور ہم سب کی ترقی کے لیے ایک اہم راستہ موجود ہے۔
کینیڈا کی وزیر خارجہ کرسٹیا فری لینڈ نے اس بات کی تصدیق کی کہ جمعہ کو انہوں نے امریکہ کے تجارتی نمائندے رابرٹ لائٹ ہائزر سے ملاقات میں ٹیرف اور نارتھ امریکی فری ٹریڈ ایگریمنٹ کے بارے میں بات کی تاہم انہوں نے کہا کہ کینیڈا امریکہ کے سٹیل اور ایلومنیم پر عائد ٹیرف سے متعلق اپنی سوچ تبدیل نہیں کرے گا جو ان کے بقول" غیر قانونی " ہیں۔
ٹرمپ نے یہ ٹیرف اس بنیاد پر عائد کئے تھے کہ کمزور مقامی صنعتیں امریکہ کی قومی سلامتی کو متاثر کر سکتی ہیں ، اس کے ردعمل میں کینیڈا اور میکسیکو اور یورپی یونین بھی محصولات عائد کر رہے ہیں۔
اس سربراہی کانفرنس کے موقع پر ٹرمپ نے ٹوئٹر پر میخواں اور ٹروڈو پر تنقید کی تھی جنہوں نے جمعرات کو اٹاوا میں ایک مشترکہ نیوز کانفرنس میں تجارت سے متعلق ٹرمپ کے موقف کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
اس کے بعد وائٹ ہاؤس نے اعلان کیا تھا کہ ٹرمپ جی سیون کانفرنس کے کچھ اجلاسوں میں شامل نہیں ہوں گے اور اپنے پہلے سے طے شدہ پروگرام سے کئی گھنٹے قبل وہ ہفتہ کی صبح سنگاپور روانہ ہو جائیں گے۔