سفارتی سطح پر پاکستان کے لیے معاملات بہت بہتر ہو رہے ہیں، پاکستان سفارتی تنہائی سے نکل آیا ہے: اسحاق ڈار

   سفارتی سطح پر پاکستان کے لیے معاملات بہت بہتر ہو رہے ہیں، پاکستان سفارتی تنہائی سے نکل آیا ہے: اسحاق ڈار

اسلام آباد :نائب وزیراعظم اور وزیرخارجہ اسحاق ڈار  کا کہنا ہےکہ   سفارتی سطح پر پاکستان کے لیے معاملات بہت بہتر ہو رہے ہیں اور پاکستان سفارتی تنہائی سے نکل آیا ہے۔نائب وزیراعظم اور وزیرخارجہ اسحاق ڈار    نےسینیٹ قائمہ کمیٹی برائے خارجہ کا اجلاس میں کہاکہ سفارتی سطح پر پاکستان کے لیے معاملات بہت بہتر ہو رہے ہیں اور پاکستان سفارتی تنہائی سے نکل آیا ہے۔

وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہاکہ حکومت کے پہلے 100 دن میں سفارتی سطح پر اعلیٰ سطح کے دورے ہوئے ہیں، سفارتی سطح پر معاملات بہتر ہو رہے ہیں اور پاکستان سفارتی تنہائی سے نکل آیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ملک کو کرنٹ اکاؤنٹ اور اندرونی خسارے کا سامنا ہے، ملک میں بہت قرضہ لے لیا گیا، وزیر اعظم نے واضع طور پر کہہ دیا کہ وہ دوست ممالک سے کسی قسم کا قرضہ نہیں مانگیں گے، اب صرف ایک ہی راستہ ہے وہ برآمدات کا راستہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ ملک میں مایوسی پھیلا رہے ہیں، ایسے عناصر عوام میں مایوسی پھیلانا بند کردیں، پاکستان کے پاس کھربوں ڈالرز کے قدرتی وسائل ہے۔وزیر خارجہ نے افغانستان کے حوالے سے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اس وقت افغانستان میں موجود ہے، افغانستان سے ہمارا بہت قریبی تعلق تھا اور رہے گا، آپ اپنے پڑوسی تبدیل نہیں کرسکتے۔

انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے داسو حملہ اور اس سے پہلے بھی چینی باشندوں پر حملہ ہوا، ان حملوں سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں خلل ڈالنے کی کوشش کی گئی، چین سیکیورٹی کے حوالے سے بہت حساس ہے، چین کا واضح مؤقف ہے کہ جہاں سیکیورٹی مسائل ہوں وہاں لوگ نہیں بھیج سکتے۔
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ عافیہ صدیقی نے اتنی تکلیف کاٹ لی ہے، ایک خاتون ہے اس نے بہت برداشت کیا ہے، عافیہ صدیقی کو بس دنیا کے سامنے امریکہ کی جانب سے مثال بنایا گیا۔انہوں نے کہا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے صدر اوبامہ کے سامنے ڈاکٹر عافیہ کا معاملہ اٹھایا، میں نے بھی ٹونی بلنکن کے سامنے یہ معاملہ اٹھایا، دفتر خارجہ اس ضمن میں جو کرسکا کرے گا۔
وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ کاش ہماری عدالتوں کے فیصلے امریکا میں تسلیم کیے جاتے، ہم پوری کوشش کرتے رہیں گے، تاہم ہم امریکی قوانین کے ساتھ زبردستی نہیں کرسکتے۔

مصنف کے بارے میں