عید الاضحی کا بابرکت تہوار ہمیں سنت ابراہیمی کی یاد دالاتا ہے۔ یعنی حضرت ابراہیم ؑکا وہ عمل جب وہ خالصتا رضا ئے الہٰی کی خاطر اپنے پیارے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے بہ رضا ورغبت آمادہ ہو گئے تھے۔ عید الاضحی کا فلسفہ اور روح بھی یہی ہے۔ یہ تہوار ہمیں ایثارکا درس دیتا ہے۔ یہ دن ہمیں اس امر کی ترغیب دیتا ہے کہ ہم خلوص دل کیساتھ اپنی پسندیدہ اور محبوب ترین شے کو اللہ پاک کی راہ میں قربان کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہیں۔ عید کے دن ہم جانور اللہ کی راہ میں قربان کرتے ہیں۔ یہ محض جانور قربان کرنے کی رسم نہیں ہوتی۔ بلکہ اللہ پاک اس عمل میں پوشیدہ ہماری نیت، خلوص ، ایثار اور جذبہ قربانی کو دیکھتا ہے اور اسی کا اجر بھی عطا کرتا ہے۔ اللہ پاک سورۃ الحج میں فرماتا ہے کہ ’’یاد رکھو۔ اللہ کے پاس ان قربانیوں کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون۔ اس کے حضور جو کچھ پہنچ سکتا ہے وہ تو صرف تمہارا تقویٰ ہے‘‘۔
ساری امت مسلمہ نہایت جوش و خروش کیساتھ عید الاضحی مناتی ہے۔ پاکستان میں بھی عید کی رونقیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ہر ایک اپنی استطاعت اور رغبت کے مطابق جانور خریدتا ہے۔عید کے تینوں دن گھروں اور بازاروں میں میلے کا سا سماں ہوتا ہے۔تاہم کچھ برس سے عید قربان کے ضمن میں یہ منفی رویہ بھی زیر بحث رہنے لگا ہے کہ قربانی میں دکھاوے اور ریا کاری کا عمل در آیا ہے۔ یقینا سب کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا ۔ مگر اکثر و بیشتر ہم ایسے رویے دیکھتے ہیں کہ دوسروں کی تحسین سمیٹنے کے لئے قربانی کے جانوروں کی خوب تشہیر کی جاتی ہے۔بصد اہتمام ان کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر ڈالی جاتی ہیں۔ ان کی قیمتیں بڑھ چڑھ کر بیان کی جاتی ہیں۔ دوست احباب اور رشتہ دار وں کے مابین یہ مقابلہ رہتا ہے کہ کس نے کتنے لاکھ کی قربانی کی ہے۔ بہت سوں کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے جانوروں کی تعداد اور قیمتیں دوست احباب کے جانوروں کی تعداد اور قیمتوں سے زیادہ ہوں ۔ یہ نہایت قبیح سوچ ہے۔عید کا جانور تو ہم سنت ابراہیمی ؑ کی تقلید میں قربان کرتے ہیں۔یہ قربانی اللہ کی راہ میں ہونی چاہیے اور خالصتا اللہ پاک کو دکھانے اور خوش کرنے کی خاطر۔ لیکن شعوری لاشعوری طور پر ہم اللہ کے بندوں کو دکھانے اور متاثر کرنے کی فکر میں سرگرداںرہتے ہیں۔ اللہ کے بجائے اس کے بندوں کی تعریف، تحسین اور پسندیدگی کی چاہ کرنے لگتے ہیں۔ اس عمل کو ریاکاری اور دکھاوا کہا جاتا ہے۔ لازم ہے کہ اس طرح کی باتوں سے اجتناب برتا جائے۔ ہوتا یہ ہے کہ بڑوں سے بچوں میں بھی یہ مقابلے بازی منتقل ہو جاتی ہے ۔بچے عمومی طور پر قربانی کے جانوروں کو بہت پسند کرتے ہیں۔ انہیں گھماتے پھراتے اور دوستوں کو دکھاتے ہیں۔ ان میں بھی مقابلے بازی کا رجحان دیکھا گیا ہے۔ لازم ہے کہ بچوں میں اس رجحان کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ قربانی خالصتاً اللہ پاک کو خوش کرنے کی خاطر ہونی چاہیے۔
اسی طرح جانور کی قربانی کے عمل میں گوشت کی تقسیم بھی ایک نہایت اہم مرحلہ ہے۔ اسلام میں گوشت کی تقسیم کا طریق کار نہایت واضح ہے۔ گوشت کو تین برابر حصوں میں بانٹنے کا حکم ہے۔ ایک حصہ قربانی کرنے والا اپنے گھر کے لئے رکھ سکتا ہے۔ دوسرا حصہ رشتہ داروں اور عزیز و اقارب کے لئے مخصوص ہے۔ جبکہ تیسرا حصہ مستحقین اور ضرورت مندوں کو دینے کا حکم ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ اس معاملے میں بھی ہم دنیا داری میں الجھے رہتے ہیں۔ بعض اوقات طمع اور لالچ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ گوشت کا عمدہ حصہ امیر رشتہ داروں اور اعلیٰ افسران کو بھجوایا جاتا ہے۔ خود اپنے لئے بھی ڈھیروں ڈھیر گوشت ذخیرہ کر لیا جاتا ہے۔ کئی کئی ماہ تک فریزر میں یہ گوشت پڑا رہتا ہے۔کئی برس سے باقاعدہ یہ اعداد و شمارسامنے آتے ہیں کہ عید الاضحی کے قریب آتے ہی جانوروں کیساتھ ساتھ ڈیپ فریزروں کی سیل بھی کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ گوشت کی تقسیم میں غریبوں مسکینوں کی باری بہت بعد میں آتی ہے۔ صاحب استطاعت سارا سال ہی گائے اور بکروں کا گوشت کھاتے رہتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم میں سے ہر صاحب استطاعت اپنے حصے کا گوشت بھی مستحقین میںبانٹ دے ۔ یعنی ایسوں میں جنہیں گوشت صرف عید کے عید ہی کھانا نصیب ہوتا ہے۔
عید کے ضمن میں ایک اور معاملہ بھی بہت اہم ہے۔ عید الاضحی کے قریب آتے ہی ایسی گفتگو اور لیکچر بھی سننے کو ملتے ہیں کہ عید پر جانور قربان کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ ان ہزاروں لاکھوںروپوں سے کسی غریب ، مسکین خاندان کی مدد کر دی جائے۔ یہ رقم ان مستحقین کے کئی ماہ کے کھانے پینے کے اہتمام کے لئے کافی ہو گی۔ اس طرح کی ترغیب سے بہت سے لوگ متاثر بھی ہوجاتے ہیں اور قربانی کرنے کے بجائے، واقعتا یہ رقم کسی دوسرے کار خیر میں خرچ کر ڈالتے ہیں۔ حج عمرہ کے دنوں میں بھی بہت سے لوگ یہ ترغیب دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ اللہ پاک ہی ہر ایک کے عمل کا بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ لیکن عالم دین بتاتے ہیں کہ اس دن اللہ پاک کو جانور قربان کرنے کا عمل سب سے زیادہ پسند ہے۔ خود نبی پاکؐ بھی نہایت اہتمام سے قربانی کیا کرتے تھے۔ اگرچہ بنیؐ نے ہمیشہ سادہ زندگی گزاری۔ اکثر ان کے گھر میں کھانے پینے کی کوئی شے موجود نہیں ہوتی تھی۔یہاں تک کہ آپ ؐ کوبھوکا رہنا پڑتا تھا۔ آپ نے ہاں کبھی دنیاوی مال و دولت کے انبار بھی موجود نہیں تھے۔ اس کے باوجود آپ ؐ نہایت رغبت اور اہتمام سے قربانی فرمایا کرتے تھے۔ لہٰذا ہمیں سنت ابراہیمی اور سنت نبوی ؐ کی تقلید کرنی چاہیے۔
ویسے غور کیجئے کہ یہ نصیحتیں ہمیں تب یاد نہیں آتیں جب شادی بیاہ، سالگراہوں اور دیگر تقریبات کے اہتمام کے لئے لاکھوں کروڑوں روپے کے اخراجات کئے جاتے ہیں۔ ان تقریبات میں جو اسراف ہوتا ہے، اسے روک کر واقعتا کسی غریب خاندان کی مدد کرنی چاہیے۔ یقینا اس سے زیادہ پسندیدہ اور نیک عمل کیا ہو گا؟ تاہم اللہ پاک نے ہمیں قربانی، حج جیسے امور کی ادائیگی کا حکم دیا ہے تو ان نیک کاموں کوخوش اسلوبی سے ادا کرنا چاہیے۔غریبوں ، مسکینوں، ضرورت مندوں کی امداد کرنی ہے تو اپنے دیگر دنیاوی معاملات کے اخراجات روک کر یہ کار خیر بھی ضرور ادا کیجیے۔
دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں قربانی کو اس کے تقاضوں کے مطابق کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ یہ توفیق بھی دے کہ ہم اس نیک عمل کی انجام دہی کو ریاکاری اور دکھاوے سے پاک رکھ سکیں۔ آمین