اُن دنوں میں اوساکا یونیورسٹی جاپان میں اردو چیئر پر فائز تھا۔ ایک مرتبہ ایک جاپانی ماں سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ وہ یونیورسٹی میں ہمارے اردو کے ساتھی جاپانی استاد کی ماں تھی۔ اُس نے ہماری دعوت کی۔ دروازے پر ہمارے استقبال کے ساتھ ہی اُس نے پاکستانی لوگوں کی محبت کے گُن گانے شروع کر دیئے۔ وہ کہے جارہی تھی اور ہم پھولے نہیں سما رہے تھے۔ ’’پاکستانی بہت انسان دوست ہیں، بہت مہمان نواز ہیں، غیرملکیوں کی آئو بھگت میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، اُن کا ہر طرح سے خیال رکھتے ہیں۔ میرے بیٹے نے اردو سیکھنے کے لیے جب پاکستانی یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو میں بہت فکرمند ہوئی کیونکہ دوری کے ساتھ ساتھ ثقافت اور زبان کا بہت فرق تھا لیکن آہستہ آہستہ بیٹے کے خطوط اور اُس کے چہرے کی رونق مجھے بتانے لگی کہ وہ پاکستان میں بہت خوش ہے‘‘۔ نامور ادیب اور مقتدرہ قومی زبان کے سابق چیئرمین ڈاکٹر انوار احمد کے یہ فقرے ہمیں صاف سنائی دے رہے تھے۔ ان کا اگلا جملہ بھی ہمیں صاف صاف سنائی دیا۔ وہ بولے جاپانی ماں پاکستانی لوگوں کی تعریفیں کرتے کرتے اچانک رک گئی اور ذرا حیرانگی سے بولی ’’البتہ ایک بات مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ پاکستان میں رہنے کے بعد جب سے میرا بیٹا واپس جاپان آیا ہے تو کچھ عجیب سی حرکتیں کرنے لگا ہے۔ کھڑکی کھولتا ہے، شاپر اور ردی کاغذ وغیرہ سڑک پرپھینک دیتا ہے یا یہ کہ جب میں اور میرا بیٹا کسی پھلوں کی دکان پر جاتے ہیں تو ابھی میں سودا لے ہی رہی ہوتی ہوں تو وہ دکاندار کے پھل اٹھا کر وہیں کھانا شروع کر دیتا ہے‘‘۔ ڈاکٹر انوار احمد جاپانی ماں کی چند باتیں بتاکر اپنے کام میں لگ گئے۔ چھوٹی باتیں، بڑے سوال، جواب کون دے گا؟ بہت ہی مہذب، نفیس اور خاندانی لیڈی جوکہ ریڈیو پاکستان کراچی کی ابتدائی براڈ کاسٹروں میں سے تھیں۔ زیڈ اے بخاری ہوں یا سلیم گیلانی، طاہرہ واسطی ہوں یا ریڈیوکا کوئی اور بڑا نام، سب کے ساتھ انہوں نے کام کیا۔ خوب سیکھا اور داد پائی۔ ریڈیو کے مائیک سے ان کا تعلق بچپن ہی سے تھا اسی لئے مائیک آن ہونے کی لال بتی نے انہیں کبھی کنفیوز نہیں کیا مگر کچھ عرصہ پہلے جب وہ ملیں تو کچھ کنفیوز تھیں۔ ٹھہرے ٹھہرے لہجے میں بولیں ’’لڑکیاں اپنے سسرال میں جاکر ثقافتی یا خاندانی آداب کے خلاف کبھی کوئی بات کریں تو لوگ کہتے ہیں کہ اِن کے ماں باپ نے تربیت میں کوئی کمی چھوڑ دی ہوگی۔ میں سوچتی ہوں کہ اپنی بچیوں کی تربیت تو میں نے خود کی ہے اور بھرپور کی ہے۔ میں نانی بن چکی ہوں مگر دیکھتی ہوں کہ میری اپنی بچیوں پر میری تربیت کا اثر زائل ہوتا جارہا ہے۔ میں راتوں کو اٹھ کر بیٹھ جاتی ہوں کہ میری بے حد تربیت کے باوجود میری بیٹیاں اُن آداب سے دور ہوتی جارہی ہیں جو ہمارے خاندان اور معاشرے کا حصہ تھے۔ تویہ بیٹیاں جو خود بھی مائیں بن چکی ہیں اپنے بچوں کی تربیت کیسے کریں گی؟ پھر بغیر تربیت اور رہنمائی کے بڑی ہونے والی نسل کیسی ہوگی جن کی زندگی کے استاد کمپیوٹر یا موبائل فون ہیں‘‘۔ چھوٹی باتیں، بڑے سوال، جواب کون دے گا؟ ایک ٹی وی چینل پر پاکستان اور انڈیا کے درمیان ہونے والے کرکٹ میچ سے قبل اسلام آباد، لاہور اور کراچی کی لڑکیوں کے تاثرات دکھائے جارہے تھے جو بہت ہی جوشیلے انداز میں پاکستان کی جیت اور انڈیا کی ہار کی دعا کررہی تھیں۔ وہ پاکستانی کھلاڑیوں سے کہہ رہی تھیں کہ انڈیا کو ہر قیمت پر نیچا دکھائو۔ اِن کی باتیں سن کر ایک بات ذہن میں آئی کہ انڈیا کی کرکٹ میں شکست کی تمنا کرنے والی یہ لڑکیاں دن رات انڈین ثقافت سے کس حد تک متاثر ہیں اِس کا شاید انہیں اب احساس بھی نہیں رہا۔ مثلاً پاکستانی لڑکیوں میں اگر کوئی فلمیں مقبول ہیں تو وہ انڈین فلمیں ہیں۔ اُن کے میک اپ، بنائو سنگھار میں جھلک ہے تو وہ انڈین بیوٹی کی ہے۔ اکثر پکوانوں کے نام مثلاً بریانی بھی انڈین ہو چکی ہے اور گول گپے ہماری ایک چٹ پٹی ڈش تھی، اب اس کا انڈین نام پانی پوری لیا جاتا ہے۔ گھروں میں لڑکیوں کا ڈانس عام ہوتا جارہا ہے۔ انڈین طرز پر مہندی کو اب رسمِ سنگیت کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی شادی بیاہ کی تمام رسمیں، منگنی، ڈھولک اور دلہا دلہن کی رخصتی وغیرہ کے تمام طور طریقے انڈین سٹائل اختیار کرگئے ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ پاکستانی لڑکیاں انڈین لڑکیوں کی نقالی میں ’’خـ‘‘ کو ’’کھ‘‘ بولتی ہیں۔ جیسے ’’خالی‘‘ کو ’’کھالی‘‘ بولیں گی۔ انڈین ثقافت ہمیں الٹا کررہی ہے اور کھیل میں ہم ان کے سامنے سیدھا کھڑا ہونا چاہتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ چھوٹی باتیں، بڑے سوال، جواب کون دے گا؟ ہم روزمرہ زندگی میں ملک کی بدحالی کا ذمہ دار حکمرانوں اور سیاست دانوں کو ٹھہراتے ہیں، بڑھ چڑھ کر اُن کے خلاف بولتے ہیں اور اُن سے بڑے بڑے سوال کرتے ہیں لیکن اوپر دی گئی باتوں کا سیاستدانوں یا حکومت سے کوئی تعلق نہیں، یہ تو ہمارے عمومی رویوں کی چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جن سے بڑے بڑے سوال جنم لیتے ہیں۔ کیا ہم ان کا جواب دینے کو تیار ہیں؟ ۔