کہنہ مشق صحافی اور کالم نگارمسعود اشعر 90 سال کی عمرمیں لاہور میں انتقال کرگئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ وہ بڑے اچھے افسانہ نگار اور کالم نگار تھے۔ مسعود اشعر کا اصل نام مسعود احمد خان تھا۔ وہ 10 فروری 1930ء کو رام پور(یوپی، بھارت)میں پیدا ہوئے تھے۔ان کے والد مولانا لطیف احمد خان رام پور کے ممتاز عالم دین تھے اور ملتان کے مولانا حامد علی خان مرحوم کے ہم عصر اور دوست بھی تھے۔ 1951ء میں انہوں نے پاکستان ہجرت کی۔ 1954 ء میں انہوں نے اپنی ادبی و صحافتی زندگی کا آغازکیا۔ روزنامہ امروزکے علاوہ وہ روزنامہ احسان، زمیندار اورآثار سے بھی وابستہ رہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے روزنامہ جنگ اور روزنامہ دنیا میں بھی کالم نگاری کی۔
مسعود اشعر کے افسانوں کے مجموعے ”آنکھوں پر دونوں ہاتھ“، ”سارے افسانے“ اور”اپنا گھر“کے نام سے شائع ہوچکے ہیں۔ وہ ادب اور معیشت کے موضوعات پر کئی کتابوں کے مترجم بھی تھے۔ مرحوم کی ادبی خدمات پر حکومت پاکستان نے انہیں 14 اگست 2009 ء کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور 2015ء میں ستارہ امتیاز عطا کیا تھا۔ مسعود اشعر کا شمار اردو کے نامور اور صاحبِ طرز کالم نگاروں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے آزادی صحافت کیلئے جدوجہد کی۔
مسعود اشعر مرحوم اور راقم الحروف نے کم و بیش 50 سال تک ملتان اور لاہور میں اکٹھے کام کیا۔
1954ء میں روزنامہ امروز لاہور کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر بنے اور 1968 تک ملتان میں رہے۔ بعد میں روزنامہ امروز لاہور سے وابستہ ہو گئے۔ انہوں نے 19 برس تک امروز میں بحیثیت ایڈیٹر کام کیا۔ مرحوم ایک طویل عرصے سے لاہور میں قیام پذیر تھے اور معروف علمی ادارے مشعل بکس کے سربراہ تھے۔ مرحوم مسعود اشعر شریف النفس اور سادہ مزاج انسان تھے۔
مرحوم کی ادبی و صحافی خدمات طویل عرصے تک یاد رہیں گی۔ مرحوم علم و عمل کا حسین امتزاج تھے۔ صدر آرٹس کونسل احمد شاہ نے مسعود اشعر کے انتقال پرافسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ مسعود اشعر عالمی اردو کانفرنس سمیت متعدد پروگرامز میں آرٹس کونسل کے ساتھ تعاون کرتے تھے،مسعود اشعر کی کمی ہمیشہ محسوس ہو گی۔
میری گزشتہ 12 سال سے مرحوم سے ملاقات نہیں رہی۔ اس سے پہلے وہ میاں بیوی حج کر کے آئے تھے تو مجھے اپنے بیٹے کے ہمراہ ان سے ملاقات کا آخری موقع ملا تھا۔ اس کے بعد ان سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ کچھ عرصہ پہلے ان کی بیگم کا انتقال ہوگیا تھا۔ وہ اپنی چھوٹی صاحبزادی کے ہاں قیام پذیر تھے۔ ان کے دونوں صاحبزادے اپنی والدہ کے انتقال پر بیرون ملک تھے اور کورونا وباء کی وجہ سے نہ آسکے تھے۔
مسعود اشعر مرحوم سادہ اور پرکشش شخصیت کے مالک تھے۔ تمام زندگی سادگی سے گزاری یہی سادگی ان کی تحریروں میں بھی نظر آتی ہے۔ سیدھی سادھی زبان استعمال کرتے تھے۔ان کے کالموں میں بھی ابہام اور تصنع نہیں۔ سجاوٹ اور تکلف نہیں۔ اپنے کالموں میں معاشرتی مسائل کو اجاگر کرتے تھے۔ مگر اسی سادگی میں جو کچھ کہنا چاہتے، کہہ جاتے۔ بطور صحافی ان کا حلقہ احباب کافی وسیع تھا۔ ان کے افسانوں کا نیا مجموعہ ”سوال کہانی“ کے نام سے پچھلے سال (2020) سامنے آیا جس میں اکیس کہانیاں ہیں۔
راقم السطورنے ممتا ز دولتانہ مرحوم کے اخبار روزنامہ آفاق میں کام کیا۔ جب دولتانہ مرحوم نے سہگلوں کو روزنامہ آفاق فروخت کیا تو میں نے لائل پور(فیصل آباد)میں بھی روزنامہ آفاق میں کام کیا۔ اسی دوران مجھے امروز کے ادارتی عملے میں شمولیت کی دعوت ملی۔1959 میں میں روزنامہ امروز ملتان سے وابستہ ہوگیا۔ 1959 ء سے 1968ء تک ملتان میں اور اس کے بعد پروگریسو پیپرز میں مجھے اور مرحوم کو طویل عرصے تک اکٹھے کام کرنے کا موقع ملا۔
اللہ تعالیٰ مسعود اشعر اور ان کی اہلیہ کی مغفرت فرمائے۔ان کے درجات بلند کر کے دونوں کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ اس موقع پر میں ان کے دونوں صاحب زادوں اور ان کے داماد سے دلی تعزیت اور ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں۔ ان کے داماد میرے محترم اور عزیز دوست سید وقارحسن گردیزی (پاکستان ٹائمزلاہور) کے صاحب زادے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مسعود اشعر مرحوم کی مغفرت فرمائے اورصاحبزادوں و صاحبزادیوں کو صبر جمیل عطا فرمائے۔