اسلام آباد: بینک دولت پاکستان نے اپنی اہم سالانہ مطبوعات میں سے ایک مالی استحکام کا جائزہ برائے 2020ء جاری کر دیا ہے، اس جائزے میں مالی شعبے میں مختلف اسٹیک ہولڈرز بشمول بینکوں، غیر بینک مالی اداروں، مالی منڈیوں، غیر مالی کارپوریٹ اداروں اور مالی منڈی کے انفرا سٹرکچر کی کارکردگی اور خطرے کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔
مرکزی بینک سے جاری کردہ جائزے میں یہ بات اجاگر کی گئی ہے کہ 2020 مالی شعبے کے لیے ایک ہمت آزما سال تھا کیونکہ اس سال کورونا کی وبا عظیم کساد بازاری کے بعد سے اب تک کی شدید عالمی کساد بازاری کا سبب بنی۔ صحت کا یہ بحران ایک طرف دنیا بھر میں انسانی جانوں کے ایسے عظیم اتلاف کا سبب بنا جس کی کوئی مثال موجود نہیں، تو دوسری طرف معاشی سرگرمیاں بھی اس سے شدید متاثر ہوئیں۔
اس بحران کے منفی مضمرات کو کم کرنے کے لیے دنیا بھر میں ملکی حکام اور مرکزی بینکوں نے غیر معمولی پیمانے پر اور معاون پالیسی اقدامات پر فورا عمل درآمد کیا تاکہ مالی اور اقتصادی لچکداری کو محفوظ کیا جائے۔پاکستان کے معاملے میں کورونا وائرس کی لہروں کے اثرات نسبتاً کم رہے، مالی سال 20 میں پیداواری خسارہ 0.47 فیصد رہا جو ابھرتی ہوئی منڈیوں اور ترقی پذیر ملکوں میں پست ترین شرحوں میں سے ایک ہے۔
فوری اور جامع پالیسی اقدامات کے جواب میں، انفیکشن کی شدت کم ہونے سے، اور نقل و حرکت پر پابندیاں نرم کرنے سے اقتصادی سرگرمیاں بحال ہوئیں چنانچہ اقتصادی دباو 2020 کی دوسری ششماہی اور اس کے بعد کے عرصے میں دھیما پڑ گیا۔ اسٹیٹ بینک کے پالیسی اقدامات کے تحت پالیسی ریٹ میں تیز رفتار اور نمایاں کمی دیکھنے میں آئی جبکہ روزگار، صحتِ عامہ کی سہولتوں اور پیداوار کی معاونت کرنے والی نئی رعایتی ری فنانسنگ اسکیمیں، قرضوں کا التوا اور ری شیڈولنگ/ تنظیمِ نو، بینکوں کے تحفظِ سرمایہ کے بفر (Capital Conservation Buffer) بھی اقدامات میں شامل تھ۔ اس کے علاوہ دیگر متعدد اقدامات کیے گئے تاکہ صارفین کی سلامتی برقرار رکھتے ہوئے فرموں اور گھرانوں کے لیے بینکاری خدمات کا تسلسل یقینی بنایا جائے۔
اسٹیٹ بینک کی طرف سے ریلیف کے اقدامات کے علاوہ حکومت کی طرف سے مالیاتی تحرک بھی فراہم کیا گیا، گھرانوں اور کاروباری اداروں کو ضروری معاونت دی گئی جس کے نتیجے میں معیشت بحال ہوئی جیسا کہ مالی سال 21 کی تخمینہ شدہ جی ڈی پی نمو 3.94 فیصد سے ظاہر ہوتا ہے۔ مالی استحکام کا جائزہ میں یہ محسوس کیا گیا کہ پاکستان کے مالی نظام نے لچک کا مظاہرہ کیا اور ہمت آزما حالات میں اس نے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ اس مالی نظام کے اثاثے 2020 میں 14.08 فیصد کی شرح سے بڑھے جبکہ گذشتہ سال یہ شرح 11.61 فیصد رہی تھی۔ اس نمو میں سب سے بڑا حصہ بینکاری شعبے کا رہا جو مالی شعبے کا سب سے بڑا جز ہے۔ مالی منڈیوں نے تغیر پذیری کا قلیل سا عرصہ گذارنے کے بعد اسٹیٹ بینک کے بروقت اقدامات کی بنا پر سال کی دوسری ششماہی میں دوبارہ اعتماد حاصل کر لیا۔
بینکاری شعبے نے نمایاں کارکردگی اور لچک کا مظاہرہ کیا۔ ڈپازٹس، جو فنڈنگ کا اہم ذریعہ ہیں، میں نمایاں نمو کے بل پرشعبے کیاثاثہ جات میں 14.24 فیصد کی مضبوط نمو ہوئی ۔ اثاثوں کے آمیزے میں ، سرکاری تمسکات میں کی جانے والی سرمایہ کاری نجی شعبے کے قرضوں سے بڑھ گئی۔ مخر الذکر کی نمو کی رفتار وبائی مرض کی وجہ سے پیدا ہونے والی سست روی اور قرضے کی کمزور طلب کی وجہ سے دب گئی ۔ 2020 کی پہلی ششماہی کے دوران اس شعبے کو خطر قرض میں معتدل اضافے کا سامنا کرنا پڑا ، جو دیگر چیزوں کے علاوہ اسٹیٹ بینک کی طرف سے ریلیف کے ضوابطی اقدامات کے نتیجے میں دوسری ششماہی میں کم ہوگیا۔
اہم بات یہ ہے کہ معاشی سرگرمی کی بحالی کے ساتھ ، کارپوریٹ سیکٹر کی کارکردگی اور ادائیگی کی استعداد میں بہتری آئی جس نے خطر قرض کے خدشات کو مزید کم کردیا۔ پست سودی و انتظامی اخراجات کے ساتھ تمسکات کی فروخت سے حاصل ہونے والے منافع کی وجہ سے بینکوں کی آمدنی میں خاصا اضافہ ہوا۔ مستحکم آمدنی سے شعبہ بینکاری کی ادائیگی قرض کی صلاحیت میں اضافہ ہوا ، کیونکہ2020کے اختتام پر شرحِ کفایتِ سرمایہ 156 بیسس پوائنٹس بڑھ کر 18.56 فیصد ہو گئی جو 11.5 فیصد کے کم از کم ضوابطی تقاضے سے کافی زیادہ ہے ۔ شعب بینکاری کے تنا کی جانچ کے نتائج بھی ظاہر کرتے ہیں کہ منفی معاشی حالات میں بھی ، شعب بینکاری تین سال بعد کے حالات میں ممکنہ طورپرلچک برقرار رکھ سکتا ہے۔
مالی استحکام کا جائزہاسلامی بینکاری اداروںکی کارکردگی کو قابل ذکر بتاتا ہیکیونکہ قرضوں میں مناسب نمو اور سرمایہ کاریوں میں اضافے کی وجہ سے ان کے اثاثہ جاتمیں2020کے دوران 30 فیصد اضافہ ہوا ۔ حوصلہ افزا طور پر ، شریعت سے ہم آہنگ سرمایہ کاری کے اضافی مواقع کی بدولت اسلامی بینکاری اداروں کو اپنا خاکہ سیالیت بہتر بنانے میں مدد ملی۔ اثاثوں کے معیار کے اظہاریوں میں بھی بہتری آئی ، جبکہ بھرپور نفعآوری نے بینکاری شعبے کی مجموعی آمدنی کو بڑھا دیا۔جائزہ میں یہ بھی اجاگر کیا گیا کہ اثاثہ جاتی انتظام کے زمرے میں بھرپور نمو کی وجہ سے غیر بینک مالی اداروں نے مجموعی طور پر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ، گو کہ مالکاری کے کاروبار سے منسلک اداروں کو دشوار معاشی حالات کی وجہ سے اثاثہ جات کے معیار میں تخفیف اور بگاڑ کا سامنا کرنا پڑا ۔
وبائی مرض کی وجہ سے نافذ ہونے والی عملی رکاوٹوں کے باوجود ، مالی منڈیوں کے انفراسٹرکچرز لچکدار رہے اور بلا تعطل مثر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے رہے۔ خاص طور پر ، ڈجیٹل مالی خدمات کے استعمال کے ضمن میں صارفین کی بڑھتی ہوئی ترجیح اور اسٹیٹ بینک کے پالیسی اقدامات نے ای بینکاری لین دین کو کافی تقویت دی۔ مزید برآں ، صنعت نے وبائی مرض کے پیش کردہ منفرد موقع سے فائدہ اٹھایا، کیونکہ اس نے محفوظ اور آسان انداز میں خدمات کی فراہمی کے لیے ڈجیٹائزیشن کی رفتار کو تیز کیا۔ اہم بات یہ ہے کہ، اسٹیٹ بینک نے قومی نظامِ ادائیگی کی حکمت عملی پر عمل درآمد کی سمت اہم قدم اٹھاتے ہوئے ، ریٹیل لین دین کا فوری ادائیگی کا نظامراست شروع کیا۔ مالی استحکام کا جائزہ 2020 اسٹیٹ بینک کی ویب سائٹ کے لنک http://www.sbp.org.pk/FSR/FSR.htm پر دستیاب ہے۔