گفتگو

گفتگو

”اس سے تو خاموشی بہتر ہے کہ کسی کو راز کی بات کہہ کر اسے کہا جائے کہ کسی سے نہ کہنا“ یہ 400 سال قبل مسیح کا قول ہے۔ مگر ہمارے ہاں ابھی تک نہیں پہنچا ورنہ یوں تنہائیاں انٹرویوز کی صورت طاہر سرور میر کے فٹ پاتھ پر منو بھائی کے گریبان کی طرح چاک نہ ہوتیں۔ سادہ ترین طرز زندگی ’’جیسے نظر آنا چاہتے ہو ویسے بن جاؤ‘‘ اس کا ہماری معاشرت میں کم از کم فائدہ یہ ہے کہ کھلنڈرے پن کو چھپانے کیلئے بھی کسی موضوع کو مذہبی ٹچ دینا پڑتا ہے نہ نوجوان نظر آنے کیلئے دشنام طرازی کرنا پڑتی ہے۔ میں نے بڑے بڑے سی ایس ایس آفیسرز، اعلیٰ عسکری و سیاسی قیادتوں بلکہ انصاف کے ایوانوں کے سرخیلوں کو تعویز دھاگہ کرنے والوں، آسٹرالوجی کے ماہر کا دعویٰ کرنے والوں، اسم اعظم سے آگہی کے دعویداروں کے در پر باری کا انتظار کرتے دیکھا۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ آئین، قانون ادارے ہونے کے باوجود کوئی نظام عملی طور پر موجود نہیں ہے ورنہ بیوروکریسی، عدلیہ، انتظامیہ، عسکری اداروں، تعلیم، لینڈ اور میڈیا مافیا بلکہ انڈر ورلڈ کے لوگ تعویز مافیا کے دروازوں پر نہ جاتے۔ اس کاروبار پر ایک دمڑی ٹیکس نہیں اور یہ کردار روحوں میں سرایت کر کے معاشرت کو اپاہج بنا رہے ہیں۔ عجیب منظر ہے کہ یہ تعویز دھاگے اور جھاڑ پھونک والے ڈاکٹروں کے پاس اپنے طبی اور ڈاکٹر انکے پاس روحانی مسائل کیلئے آتے ہیں۔ ایک میرے بزرگ دوست جو بائیں بازو کے دانشور تھے، سوشلسٹ اور کیمونسٹ ہونے کی وجہ سے سارا دن اللہ کریم کے وجود کی نفی کرتے اور اسلامی شعار کا مذاق بناتے گویا ان کا پسندیدہ موضوع یہی ہوا کرتا۔ ایک دن میں نے کہا، پا جی آپ سارا دن اس ہستی کی مخالفت میں دلائل دیتے ہیں جس کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔ اسی طرح ہی تحریک پاکستان کے دنوں میں قائداعظمؒ کی مخالفت دراصل پاکستان کی مخالفت تھی۔ پاکستان بن گیا، 1971 ہو گیا۔ یونیورسٹی کے دنوں میں میرے ایک دوست جو طبعاً بہت مخلص مگر ضدی تھے، جمعیت کے رکن تھے ااور میرے ساتھ پھڈا رہتا کہ وہ بھٹو صاحب کے نظریاتی مخالف اور مولانا مودودیؒ کے نظریاتی حامی، قائداعظمؒ کے بھی شدید مخالف تھے۔ اب فرماتے ہیں بھٹو صاحب گریٹ لیڈر اور نظریاتی رہبر تھے۔ ان کے نظریاتی دوست مجھے بہت پسند ہیں۔ دوسری جانب مولانا مودودیؒ سے سیدھے گیئر بدلا اور عمران خان پر آ گئے۔ ہر اس کاذب کے حامی ہو گئے جو عمران نیازی کی حمایت میں لکھتا اور بولتا تھا۔ وہی بولنے والے وقت پورا ہونے پر خیالات بدل گئے تو موصوف ان کے سابقہ اقوال کے خلاف ہو گئے۔ عمران نیازی ان کو نہیں جانتا مگر وہ جاننے والوں کی اکثریت سے محروم ہو چکے ہیں کہ وہ نیازی صاحب کے متعلق سچائی بیان کرتے ہیں۔ اب ان کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی سے نکل بھی جائیں تو جماعت اسلامی پیپلزپارٹی کی طرح اندر سے نہیں نکلتی اور دوسری جانب عمران کے جلسے میں نچنے کو دل کرتا کی سپورٹ بھی چاہتے ہیں اور ریاست مدینہ کا مذہبی ٹچ بھی۔ بلاول بھٹو پسند ہے، سابق صدر زرداری سے نفرت ہے اور اس کو بات کا پکا بھی کہتے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی زندگی تک نواز شریف پسند رہے۔ یہ دراصل ان اکیلے کی نہیں کافی لوگوں کی کیفیت ہے۔ جنرل باجوہ عمران کا ساتھ دے، فیض حمید ساتھ دے تو سوال کہ کیا اسٹیبلشمنٹ پاکستان کی نہیں؟ جب وہ غیر جانبدار ہوں تو کہتے کہ بھٹو صاحب سچے اور مظلوم تھے۔ وطن عزیز کی تاریخ یعنی موجودہ پاکستان میں واحد چیف جسٹس جناب قاضی عیسیٰ صاحب جو حقیقی معنوں میں جینوئن جج ہیں جنہوں نے فیملی سمیت کٹہرا دیکھا اور سرخرو ہوئے۔ کٹہرا بھی اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ اور اعلیٰ ترین عدلیہ کے ساتھ ساتھ کلٹ خان نیازی کا، جب زرداری اور نوازشریف کے ساتھ انصاف ہو تو وقت کے بہترین قاضی صاحب ان کو ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ امریکہ میں ٹرمپ ڈوب رہا تھا، ایک روحانی شخصیت جن سے مجھے عقیدت اور نیازمندی ہے تسنیم مالک بہن ایک دن فون کر کے کہنے لگیں، بھائی جان امریکہ میں اتفاق سے ٹرمپ کے دور میں چند جج اس کے ہاتھوں مقرر ہوئے، اعلیٰ عدلیہ میں ٹرمپ کی بڑی پذیرائی ور دوستیاں ہیں، کہیں عدلیہ اس کو بچانے اور حمایت میں ہراول دستہ تو نہیں بن جائے گی۔ وہ کانوینٹ سکولوں اور کالجز میں پڑھاتی رہی ہیں۔ جسٹس منیر سے مولوی مشتاق، شیخ انوار، افتخار چوہدری، ثاقب نثار، کھوسہ، گلزار اور ماشاء اللہ بندیال تک کے حالات سے واقف تھیں۔ اس لیے ان کو امریکہ میں بھی یہی وسوسہ ہونے لگا۔ میں نے کہا بہن، کامیاب ریاستوں کی عدالتیں کسی کی خاطر اپنا نظام، آئین، قانون اور ساکھ کبھی دائو پر نہیں لگاتیں۔ پھر دیکھا کہ مجسٹریٹ کی عدالت سے ٹرمپ گرفتار ہوا، بعد ازاں نااہل بھی۔ عدالتیں، عدالتیں ہوا کرتی ہیں، چونکہ ہمیں عادت نہیں لہٰذا جناب قاضی فائز عیسیٰ صاحب بے انصافیوں کو پسند نہیں آ رہے۔ ایک فیصلے کے خلاف آنے پر جج کی ٹرولنگ شروع ہو جاتی ہے اور وہی جج فیصلہ حق میں دے تو اس کی بیعت شروع کر دیتے ہیں۔ خودپسندی کا کیا معیار پایا ہے کہ اگر کوئی بلوائی اور کھلنڈرا ہمیں پسند ہے تو اس کو پسند کرو ورنہ ہم آپ کے دشمن ہیں۔ کوئی رومی ہو یا شامی، عباسی ہو یا کپی یا شاپر ہو، امراؤ جان ادا ہو یا مقبول بی بی کوئی اقلیت کو اکثریت اور بدنامی کو شہرت میں محض پراپیگنڈے کے زور پر نہیں بدل سکتا۔ بھلا وہ شخص اکچریت کی بات کرنے میں حق بجانب ہے جو علیم خان کے چھوڑے جانے پر اوندھے منہ آ گرے۔ میرے ایک دوست شکیل قادر پی آئی سی لاہور میں آئی سی یو میں تقریباً 15/16 سال سے خدمات انجام دے رہے ہیں، کہتے ہیں کہ جو مریض آسمان سر پر اٹھائے ہوئے آتے ہیں انہیں کچھ نہیں ہوتا یعنی دل کی تکلیف نہیں ہوتی معدے یا پٹھے کا درد ہوتا ہے اور جو بیچارے اطمینان کے ساتھ آتے ہیں کہ ڈاکٹر کی رائے لے لیں وہ دل کے دورے میں مبتلا پائے جاتے ہیں۔ یہ سارا ٹبر باتیں بہت بڑی بڑی کرتا ہے، ان کو پکا پتہ ہے کہ بیرون ملک انکے سہولت کار اور مافیاز کے ہوتے ہوئے انہیں کچھ نہیں ہونے والا۔ یہ کونسے نظریاتی لوگ ہیں اقتدار نہ ملنا ہی ان کیلئے سزائے موت ہے، اداروں کا غیر جانبدار ہونا ہی ان کی سزا ہے۔