سیول: جنوبی کوریا نے 2027 تک کتے کے گوشت کی فروخت پر پابندی لگانے کے لیے ایک نیا قانون منظور کر لیا۔
اس قانون کا مقصد کتوں کو گوشت کے لیے ذبح کرنے اور ان کی فروخت کو ختم کرنا ہے، یہ قدم کتے کا گوشت کھانے کے صدیوں پرانے رواج کو ختم کرنے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔
واضح رہے کہ جنوبی کوریا میں پچھلی چند دہائیوں میں کتے کا گوشت عوام میں اپنی مقبولیت کھو چکا ہے اور صرف بوڑھے لوگوں میں مقبول ہے جبکہ خاص طور پر نوجوان اس سے پرہیز کرتے ہیں۔
قانون کے تحت کتے کو کھانے کے لیے پالنے یا ذبح کرنے پر پابندی ہوگی، جیسا کہ کتے کا گوشت تقسیم کرنے یا بیچنے پر بھی پابندی ہوگی۔ ایسا کرنے میں قصوروار پائے جانے والوں کو جیل بھیجا جا سکتا ہے۔
کتوں کو ذبح کرنے والوں کو تین سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے، جبکہ گوشت کے لیے کتے پالنے والے یا کتے کا گوشت بیچنے والوں کو زیادہ سے زیادہ دو سال قید ہو سکتی ہے۔ تاہم کتے کے گوشت کا استعمال خود غیر قانونی نہیں ہوگا، یعنی کتے کا گوشت کھانے والوں کو سزا نہیں دی جائے گی۔
نئی قانون سازی تین سال کے عرصے میں نافذ ہو جائے گی، جس سے کتے کے گوشت کے بیوپاروں اور ریستوران کے مالکان کو روزگار اور آمدنی کے متبادل ذرائع تلاش کرنے کا وقت ملے گا۔ انہیں اپنے کاروبار کو مرحلہ وار ختم کرنے کا منصوبہ اپنے مقامی حکام کو پیش کرنا ہوگا۔
حکومت نے کتے کے گوشت کے بیوپاروں، قصابوں اور ریستوراں کے مالکان کی مکمل مدد کرنے کا وعدہ کیا ہے، جن کے کاروبار کو بند کرنے پر مجبور کیا جائے گا، اس کے لیےکیا معاوضہ پیش کیا جائے گا اس کی تفصیلات پر ابھی کام ہونا باقی ہے۔
حکومتی اعدادوشمار کے مطابق، جنوبی کوریا میں 2023 میں کتے کے گوشت کے 1,600 ریستوراں اور 1,150 کتے کے فارم تھے۔
1980 کی دہائی سے تعلق رکھنے والی پچھلی حکومتوں نے کتے کے گوشت پر پابندی لگانے کا وعدہ کیا تھا لیکن پیش رفت کرنے میں ناکام رہی لیکن موجودہ حکومت نے بالآخر کتے کے گوشت پر پابندی لگانے کا قدم اٹھایا۔
کتوں کے گوشت کے فارمرز نے پابندی کے خلاف مہم چلائی تھی۔ ان کا استدلال تھا کہ نوجوانوں میں گرتی ہوئی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اس عمل کو وقت کے ساتھ قدرتی طور پر ختم ہونے دیا جانا چاہیے۔ بہت سے کسان اور ریسٹوریٹر بوڑھے ہیں اور کہتے ہیں کہ زندگی کے اس عمر میں روزی روٹی کو تبدیل کرنا ان کے لیے مشکل ہوگا۔
واضح رہے کہ چین اور ویتنام میں کتے کا گوشت اب بھی فروخت اور کھایا جاتا ہے۔