انٹر نیٹ کی ایجاد نے دنیا میں تہلکہ مچا دیاہے ،جہاں موبائل فون کمپنیاں اور حکومتیں اربو ں روپے کا منافع کمارہی ہیں وہاں برسوں سے چلنے والا عید کارڈ ،ڈاک کا نظام بری طرح متاثر ہوا ہے ،مسلم ممالک میں عیدو بقر عید پر کروڑوں کا کاروبار عید کارڈز کے ذریعے ہوتا تھا ،وہ اب ختم ہوگیا ہے ،خطوط وتار کے ذریعے آدھی ملاقات کے سلسلے کی بجائے ای میل ،وٹس ایپ ،میسیجنگ ،میسنجر ،فیس بک ،ٹوئیٹر وغیرہ جیسی سینکڑوں دیگر نیٹ کے پروگرامز نے ان کی جگہ لے لی ہے ،گھر بیٹھے اب کوسوں دور اپنوں سے بات کرنا انہیں دیکھنا ایسا ہوگیا جیسے ایک گھر میں بیٹھ کر بات کرنا ،کاروباری دنیا میں انٹر نیٹ کے باعث انقلاب آگیا ،اربوں کھربوں کا کاروبار لوگ اس اہم ایجاد کے ذریعے سے کررہے ہیں جبکہ لاکھوں کی تعداد میں بے روزگار لوگوں کو انٹر نیٹ کی سہولت نے روزگار دیا جو گھر بیٹھے ماہانہ لاکھوں کمارہے ہیں ،انٹر نیٹ کے باعث موبائل فونز ،کمپیوٹرز کا کاروبار خوب پروان چڑھ رہا ہے ،پاکستان میں ایک سروے کے مطابق آدھی سے زائد آبادی کے پاس موبائل فونز موجود ہیں جس کی صنعت ،موبائل اور انٹر نیٹ کی سہولت دینے والی کمپنیاں دن دگنی رات چگنی ترقی کررہی ہیں وہ علیحدہ بات ہے کہ پاکستان جب سے 90 فیصدآئی ایم ایف کے کنٹرول میں خاص کر موجود ہ حکومت کے دور میں آیا ہے ، نیٹ کے استعمال پر ٹیکسز میں آئے روز اضافہ ہوتا جارہا ہے ،جو اب صارفین کی برداشت سے باہر ہورہا ہے ،انٹر نیٹ کا استعمال آدمی کی سوچ پر منحصر ہے ،اس کا استعمال مثبت اور منفی دونوں طرح سے ہوسکتاہے ،یور پ میں کسی بھی نئی ایجاد کا استعمال ضرورت اور مثبت سرگرمیوں یا معاشی ترقی ،کاروبار کے لئے ہوتاہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں جب اسی کی دہائی میں
کمپیوٹر ،وی سی آر کا آغاز ہوا تو نوجوان ،بوڑھے سب سارا سارا دن ان پر انڈین فلمیں ،گانے دیکھتے رہتے تھے ،آہستہ آہستہ انہوںنے وی سی ڈی ،ڈش ،کیبل کا استعمال بھی انہی مقاصد کے لئے کیا ،ایسا ہی کچھ انٹر نیٹ کے استعمال میں بھی کیا جارہا ہے ،نوجوان نسل پورن فلموں کو دیکھنے میں خطرناک حد تک دلدل میں دھنستی جارہی ہے لیکن حکومتی سطح پر پورن ویب سائٹس کو بلاک کرنے یا بند کرنے کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات دیکھنے میں نہیں آرہے ،نوجوان نسل کا اپنے خاندان والوں خاص کر والدین سے بیٹھ کر بات چیت کرنا ،دکھ درد بانٹنا ،مشورے لینا جیسی پرانی روایات ،اب دم توڑ رہی ہیں ،عریانی وفحاشی ،جسم فروشی کا دھندہ پہلے پاکستان کے چند بڑے شہروں میں ہوتا تھا ،اب موبائل ،انٹر نیٹ کے باعث گلی ،محلوں ،مارکیٹو ں تک پھیل چکا ہے ،پاکستانی معاشرہ بری طرح اس کی لپیٹ میں آچکا ہے ،انٹر نیٹ کی سہولت اگر چند منٹوں کے لئے بند ہوجائے تو اس کے استعمال کرنے والے پاگل سے ہوجاتے ہیں ،آئے دن انٹر نیٹ پیکجز بھی اس طرز کے دیئے جارہے ہیں جن میں رات کو گفتگو کرنا مفت جسکے باعث نوجوان نسل تمام رات جاگ کر گزارتی ہے اور دن بھر سوتی رہتی ہے جس سے ان کی تعلیمی صلاحیت ،معیار میں کمی آرہی ہے ،کالجز، سکولز، یونیورسٹیز وغیرہ میں طلباء کی حاضری نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے جب کلاسز میں حاضری نہ ہوگی تو پھر پاس ہونے کے لئے منفی طریقے ڈھونڈے جاتے ہیں جن میں نقل کرنے کا بڑھتا ہوا رجحان قابل ذکر ہے۔پاکستان میں کیونکہ بے روزگاری ،آئے روز بڑھتی جارہی ہے ،معاشی ،اقتصادی حالات دگرگوں ہیں ،روپے کی گرتی ہوئی قیمت نے افراط زر اور مہنگائی میں بے پناہ اضافہ کردیا ہے ،اس لئے میں بعض ایسی خواتین کو بھی جانتا ہوں جو گھر بیٹھے کاروبار زندگی چلانے اور اپنے والدین ،شوہر کاہاتھ بٹانے کیلئے انٹر نیٹ کے ذریعے بوتیک ،کھانے پکانے کی ترکیبیں ،دستکاری کی تربیت کے ذریعے ماہانہ اتنی رقم کما رہی ہیں جن سے ان کے گھر کا چولہا چل رہا ہے ،چینلز کے ذریعے سیاحت ،جرنلزم،ڈاکو منٹریز کے سلسلے میں بھی پاکستانی نوجوان روزگار کما رہے ہیں لیکن ان کی تعداد ابھی کافی کم ہے ،میڈیا اور حکومتی بندشوں ورکاوٹوں کے بعد وہ اینکرز جنہیں چینلز سے نکال باہر کیاگیا وہ سوشل میڈیا کا سہارا لے کر اپنے اپنے ویب چینلز چلا رہے ہیں ،جن میں وہ پاکستان میں ہونے والی کرپشن ،اقراباء پروری ،مہنگائی اور بعض حساس معاملات پر کھل کر بات کرنے میں مصروف ہیں ،اسی طرح پرائیویٹ طور پر ہزاروں کی تعداد میں سوشل میڈیا پر چینلزوہ کچھ دیکھا اور بتارہے ہیں جو ہمارے الیکٹرانک چینلز اور پرنٹ میڈیا پر نہیں دیکھایا اور لکھا جاسکتا،پاکستان میںعلماء حفاظ وقراء کا طبقہ عرصہ دراز سے کوئی حکومتی امداد نہ ہونے اور مدارس مساجد میں بہت قلیل تنخواہ ملنے کے باعث زبوں حالی کا شکار چلا آرہا ہے ،اب قرآن وحدیث کی تعلیم دینے کے لئے یہ حضرات آن لائن کلاسز کا اہتمام کررہے ہیں جس کا زیادہ تر فائدہ یورپ کے مسلمان اٹھارہے ہیں جو آن لائن قرآن وحدیث کی تعلیم حاصل کرنے میں مصروف ہیں ،اسی طرح کورونا کی پہلی دوسری تیسری اور چوتھی لہروں نے دنیا بھر کی طرح پاکستان کا تعلیمی نظام بھی بری طرح متاثر کیا جس کے تدارک کے لئے انٹر نیٹ کی سہولت کے ذریعے ہی آن لائن کلاسز کا سلسلہ مدد گار ثابت ہوا ،بہر حال انٹر نیٹ ،موبائل کا منفی استعمال ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے ہم اس سے ترقی وخوشحالی کی منزلیں بھی طے کرسکتے ہیں اور منفی استعمال کے ذریعے پستی کی اتھاہ گہرائیوں میں بھی گر سکتے ہیں ،اب یہ فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں؟ ۔