ِمحترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے بارے میں "خون ناحق ، رزق خاک ہوا" کے عنوان سے کالم چھپا تو کئی مہربانوں، عزیزوں اور کرم فرمائوں نے اس خیال کا اظہار کیا کہ اس میں کچھ تشنگی پائی جاتی ہے اور پھر آپ جو شروع سے پیپلز پارٹی کے مخالف چلے آرہے ہیں ، آپ کیسے محترمہ کی شخصیت سے متاثر ہوئے اور انکی توصیف و تحسین پر آمادہ ہوئے۔ مجھے اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ پچھلی صدی کے ساٹھ کے عشرے کے آخری برسوں میں جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی اور پیپلز پارٹی جو دعوے ، نعرے ، نظریات اور انداز سیاست سامنے لے کر آئی اُس سے مجھے ہی نہیں بلکہ میرے بہت سارے جاننے والوں اور حلقہ احباب میں شامل مہربانوں کوبھی اس سے اختلاف تھا ۔ بلاشبہ پیپلز پارٹی نے اپنی سیاست کے آغاز پر سوشلزم کی جو اصطلاح استعما ل کی، سرخ ہے، سرخ ہے ایشیا کے جو نعرے بلند کیے اور پھر جناب ذوالفقار علی بھٹو نے 1970 کے عام انتخابات میںپیپلز پارٹی کے محض پنجاب اور سندھ کے صوبوں میں اکثریتی جماعت ہوتے ہوئے مشرقی پاکستان کے بحران اور انجام کار علیحدگی میں جو کردار ادا کیا وہ مجھے اور میرے قریبی لوگوں کو کبھی قبول نہیں رہا۔ سقوط مشرقی پاکستان کے بعد دسمبر1971 کے آخر میں جناب ذوالفقار علی بھٹو نے بحیثیت صدر پاکستان و سویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر عنان حکومت سنبھالی تو اس کے بعد اُن کے جولائی 1977 میں مارشل لاء کے نفاذ کے نتیجے میں اقتدار سے علیحدگی کی مدت تک انکا جو فسطائی اور اپنے مخالفین کو کچلنے اوران کی تضحیک کرنے کا انداز حکومت رہا، یقینا اس پر میری طرح کے لوگوں کے سخت تحفظات اور اعتراضات ہی نہ رہے بلکہ یہ انداز حکمرانی سخت ناپسند بھی رہا۔ مارچ 1977 کے عام انتخابات میں اُنکی حکومت کی طرف سے انتخابی دھاندلی کا ارتکاب کرنا یقینا میری طرح لوگوں کیلئے کسی طرح بھی قابل ِ قبول نہیں تھا۔ اُن کے خلاف حزب مخالف کی جماعتوں کے اتحاد پاکستان قومی اتحاد نے احتجاجی تحریک شروع کی جس نے جلد ہی تحریک نفاذ نظام اسلام کا روپ دھار لیا تو میری طرح کے لوگوں کی ہمدردیاں بلا شبہ پیپلز پارٹی کے مخالفین کے ساتھ تھیں۔ جولائی 1977 میں مارشل لاء کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہوئی تو ہم بھی اس پر شادیانے بجانے والوں میں شامل تھے ۔ بات یہی پر ختم نہیں ہوئی جناب ذوالفقار علی بھٹو کو نواب محمد احمد خان کے قتل کے الزام میں لاہور ہائی کورٹ کے پانچ رُکنی بنچ کی طرف سے سزائے موت سنائی گئی اور سپریم کورٹ نے بھی اکثریتی فیصلے سے اس سزا کو برقرار رکھا اور 4اپریل 1979کی رات جنا ب ذوالفقار علی بھٹو کو سنٹرل جیل راولپنڈی میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا تو میری طرح کے لوگوں کوکوئی ملال نہیں تھا کہ جناب بھٹو کو انکے کیے کی سزا ملی ہے۔
پیپلز پارٹی کیلئے بلا شبہ یہ ابتلا کا دور تھا ۔محترمہ بے نظیر بھٹو اپنی والدمحترمہ نصرت بھٹو کے ہمراہ سہالہ پولیس رسٹ ہائوس میں نظر بند تھیں اور کچھ عرصہ بعد وہ خود ساختہ جلا وطنی اختیار کرتے ہوئے لندن چلی گئیں تو بھی میری طرح کے لوگوں کیلئے اس میں ہمدردی کے کوئی پہلو نہیں تھے ۔ اس دوران 1981کے شروع میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے بھائیوں ، شاہ نواز بھٹواور میر مرتضیٰ بھٹو کی زیر قیادت قائم دہشت گرد تنظیم الذوالفقار نے پی آئی اے کے طیارے کو اغوا کر کے پہلے کابل اور وہاں سے دمشق پہنچایا اورانجام کار طیارے اور مسافروں کے باز یابی کیلئے ملک کی جیلوں میں دہشت گردی اور اسی طرح
کے سنگین الزامات میں بندپانچ درجن کے لگ بھگ پیپلز پارٹی کے جیالوں کی رہائی پر حکومت مجبور ہوئی تو اس سے بھی پیپلز پارٹی کے خلاف دل میں موجود مخالفت میں یقینا مزید سختی پیدا ہوئی۔ 10اپریل 1986 کو محترمہ بے نظیر بھٹو خود ساختہ جلا وطنی ختم کر کے واپس پاکستان آئیں اور لاہور میں انکا تاریخی استقبال ہوا تو بہر کیف یہ اس بات کی علامت تھا کہ پیپلز پارٹی کی مقبولیت میں کچھ کمی نہیں آئی۔
اسی دوران محترمہ بے نظیر کے لاہور سے جی ٹی روڈ کے ذریعے مختلف بڑے شہروںمیں رکنے اور وہاں جلسہ ہائے عام سے خطاب کرنے کے بعد پنڈی پہنچنے کے پروگرام کے حوالے سے ایک ایسا واقعہ بھی رونما ہوا کہ جس کو نہ تو میں بھول سکا ہوں اور نہ ہی اسکی کوئی توجیح کرسکتا ہوں۔ 18اپریل 1986 کا دن تھا اور گائوں چونترہ سے میری بارات چک بیلی خان روڈ کے راستے روات اور سواں کیمپ سے گزرتے ہوئے پنڈی لیاقت باغ سے آگے مری روڈ پر کمیٹی چوک کے نواح میں آرہی تھی۔ اُسی دن محترمہ بے نظیر بھٹو نے جہلم سے روانہ ہوکر پنڈی لیاقت باغ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرنا تھا ۔ ہمیں خدشہ تھا کہ جب بارات پنڈی پہنچے تو یہ نہ ہو کہ لیاقت باغ کے سامنے مری روڈ بنداور ٹریفک بلاک ہو۔ والدہ محترمہ بے جی مرحومہ و مغفورہ سے بارا ت کی روانگی کے وقت کہا کہ بے جی دعا کریں کہ کوئی مشکل پیش نہ آئے اور راستے بلا ک نہ ہوں ۔ بے جی کا کہنا تھا کہ ، بچے کوئی فکر نہ کرو راستے کھلے ملیں گے۔ ہم پنڈی لیاقت باغ کے سامنے سے گزرے تو کوئی رش نہیں تھا ۔ پتہ چلا کہ پیپلز پارٹی کا لیاقت باغ کا آج کا جلسہ منسوخ ہوگیا ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹوجو جہلم رات گزارنے کے بعد جی ٹی روڈ کے ذریعے پنڈی آرہی تھیں انکی طبیعت اچانک خراب ہوگئی اور وہ مندرہ ، روات کے درمیان ایک ریسٹ ہائوس میں آرام کرنے کیلئے رُک گئی ہیں۔ اللہ کریم کا خصوصی کرم ہوا اور میری مرحومہ بے جی کی راستے کھلے ہونے کی دعا پوری ہوگئی۔
نومبر1988 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے قومی اسمبلی میں بڑی پارٹی ہونے کے ناتے محترمہ بے نظیر بھٹو نے بطور وزیر اعظم پاکستان حلف اٹھایا تو انکا شروع، شروع میں انداز ایسا تھا کہ جیسے وہ اپنے مخالفین سے انتقام لے رہی ہوں۔ تاہم وزیر اعلیٰ پنجا ب میاں محمد نواز شریف کی بھر پور مخالفت اور عدم تعاون اور اپنی پارٹی کے بزرگ رہنمائوں کی طرف سے بھر پور تعاون نہ ملنے کی بنا پر محترمہ بے نظیر بھٹو کو جلد ہی بہت ساری باتوں کی سمجھ آگئی اور انہیں اندازہ ہوگیا کہ حکومت کرتے ہوئے کئی کمپرومائز بھی کرنا پڑتے ہیں۔ اس دوران انہیںاپنے خاوند ذی وقار محترم جناب آصف علی زرداری کی بدعنوانی میںملوث ہونے اور مسٹر ٹن پرسنٹ کا لقب پانے کی شہرت نے بھی کافی نقصان پہنچایا۔ اگست 1990 میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت برطرف کر دی گئی تو آئندہ عام انتخابات میں کامیابی کیلئے اُن کے پاس کوئی زاد راہ نہیں تھا تاہم 1993میں میاں نواز شریف کی حکومت کے خاتمے کے بعد ملک میں عام انتخابات ہوئے تو محترمہ بے نظیر بھٹو دوسری بار وزارت عظمیٰ کی کرسی پر متمکن ہوئیں۔ اب انکے روابط ہی وسیع نہیں تھے بلکہ وہ اقتدار کے تقاضوں کو بھی بہتر طور پر سمجھنے لگی تھیں۔ ان کے شوہر نامدار جنا ب آصف علی زرداری کی بد عنوانی اور لوٹ مار کے قصے ان کیلئے ایک بار پھر مشکلات اور مسائل کا ذریعہ بننے لگے لیکن یہ امر حیران کن تھا کہ مغرب کے اعلیٰ تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرنے اور بظاہر مغربی تہذیب کی دلدادہ ہونے کے باوجود محترمہ بے نظیر بھٹوکاانداز فکر و عمل ایک وفا شعار مشرقی بیوی کاروپ اختیار کیے ہوئے تھا۔ اُن کی وفا شعاری ، مشرقی تہذیب سے اُنکی لگن اور باوقار اور باحیامشرقی خاتون کاروپ بہر کیف میری طرح کے پرانے خیال کے لوگوں کیلئے کسی حدمحترمہ کے حوالے سے ایک خوش کن تصور تھا ۔
اکتوبر 1999میں میاں نواز شریف کی حکومت ختم ہوئی اورجنرل پرویز مشرف کا فوجی دور شروع ہوا تو محترمہ بے نظیر بھٹوکیلئے ملک سے باہر دوبئی میں رہنے کا دور بھی طویل ہوگیا ۔ اکتوبر 2002میں عام انتخابات ہوئے تو پاکستان پیپلز پارٹی قومی اسمبلی میں بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی لیکن اس میں سے پیڑیاٹ کے نام سے پیپلز پارٹی کے بعض اہم ارکان قومی اسمبلی کا گروپ سامنے آگیا جس نے پرویز مشرف کی زیر نگرانی حکومت میں شمولیت اختیار کرلی ۔ یقینا یہ پیپلز پارٹی اور محترمہ بے نظیر بھٹوکیلئے ایک طرح کی صدمے او ر پریشانی کی بات تھی تو اس کے ساتھ انکے شوہر نامدار جناب آصف علی زرداری جو زیر حراست نیب عدالتوں میں اپنے خلاف قائم بد عنوانی کے مقدمات میں پیشیاں بھگت رہے تھے مزید پریشانی کا باعث تھا۔ محترمہ خود اپنے بچوں کے ساتھ دوبئی میں مقیم تھیں ۔ یہ صورتحال ایسی خوش کن نہیں تھی او ر اس بنا پر محترمہ بے نظیر بھٹوکیلئے ہمدردی کا پیدا ہونا ایک فطری امر تھا۔
2007 میں محترمہ بے نظیر بھٹونے ایک طرف لندن میں میاںمحمد نواز شریف کے ساتھ میثاق جمہوریت پر دستخط کیے تو خوب واہ ، واہ ہوئی لیکن ساتھ ہی امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور برطانوی حکومت کی ایما پر ان کے پاکستان کے فوجی حکمران پرویز مشرف سے بھی درپردہ رابطے قائم ہوئے ۔ محترمہ پرویز مشرف کو باوردی صدر کے طور پر انتخاب میں تعاون کرنے پر آمادہ ہوئیں جس کے بدلے میں پرویز مشر ف نے انہیں این آر او دینے پر آمادگی ظاہر کی ۔این آ ر او کے تحت پیپلز پارٹی کے اہم رہنمائوں اور دوسرے بہت سارے لوگوں کے خلاف برسوں سے قائم مقدمات کے خاتمے کی راہ ہموار ہوئی تو محترمہ بے نظیر بھٹونے پاکستان واپسی کا فیصلہ کرلیا۔ صدر پرویز مشرف نہیں چاہتے تھے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان آئیں۔ انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کودہشت گردی کا نشانہ بنائے جانے اور انکی جان کو خطرہ ہونے کے خدشات سے آگاہ کیا لیکن محترمہ ہر صورت پاکستان آنے کے فیصلے پر قائم رہیں۔وہ کراچی پہنچیں تو ایک بڑا ہجوم انکا استقبال کیلئے ہوائی اڈے پر موجود تھا۔انکا استقبالی جلوس جب کارساز پہنچا تو اسکو خود کش حملے کا نشانہ بنا یا گیا ۔ محترمہ خود تو مشکل سے محفوظ رہیں لیکن ان کے جلوس میں شریک کم وبیش150 بے گناہ انسانی جانیں اس دہشت گردی کا نشانہ بن گئیں ۔ یقینا یہ امر ایسا نہیں تھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو سے ہمدردی کے جذبات نہ ابھرتے ۔
سچی بات ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شخصیت کا یہ پہلو انتہائی قابل قدر رہا کہ وہ مغربی ممالک میں پاکستان کے حوالے سے ایک خوبصورت پہچان اور پاکستان کی ایک جاندار آواز تھیںتو ملک میں بھی پاکستان کی یکجہتی او ر اتفاق کی ایک توانا علامت تھیں۔ اس کے ساتھ انکا ایک مشرقی خاتون کا باوقار روپ اور دینی تعلیمات سے لگائو کا انداز بلاشبہ میرے طرح کے لوگو ں کیلئے بتدریج پسندیدگی کاسبب بنا۔ پھر پاکستانی سیاست میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی زیر قیادت پیپلز پارٹی کے اجتماعی رویوں میں جو مثبت تبدیلیاں آئیں اور جمہوریت اور جمہوری اداروں کے استحکام کے مشن کو پیپلز پارٹی بالخصوص محترمہ بے نظیر بھٹو شہید آگے لیکر چلیں تو اسکا نتیجہ یہی سامنے آنا تھا کہ میری طرح کے پیپلز پارٹی کے روائتی مخالفین بھی محترمہ بی بی کی شہادت پر اپنے آنسو بہنے سے نہ روک سکے۔