اسلام آباد: سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی والے ملک کیلئے خطرناک ہیں۔ عمران خان مزید وزیر اعظم رہتے تو پاکستان نہیں رہنا تھا۔ عمران خان نے کابینہ اجلاس میں سعودی ولی عہد کے بارے میں نازیبا زبان استعمال کی ان کے اپنے وزیر نے یہ بات سعودی سفیر کو بتا دی ۔
سینئر صحافی جاوید چودھری نے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات اور ان کی گفتگو اپنے کالم میں شائع کی ہے۔ جاوید چودھری نے کہا کہ میں نے جنرل باجوہ سے پوچھا کیا آپ نے عمران خان کو قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے سے روکا تھا؟‘انہوں نے جواب دیا کہ یہ درست ہے میں نے عدم اعتماد کے بعد عمران خان کو میسج کیاتھا ۔ پرائم منسٹر آپ صرف ایک میچ ہارے ہیں‘ سیریزابھی باقی ہے۔
جنرل باجوہ کا کہنا تھا کہ آپ اور حکومت میں صرف دو ووٹوں کا فرق ہے ۔ آپ قومی اسمبلی سے استعفے دینے کی غلطی نہ کریں ۔ یہ غلطی بنگلہ دیش میں خالدہ ضیاء نے کی تھی ۔ حسینہ واجد نے اس کی پوری پارٹی تباہ کر دی تھی‘آپ اسمبلی میں رہیں ۔ آپ کودوبارہ موقع مل جائے گا ۔ عمران خان نے میسج پڑھا لیکن جواب نہیں دیا اور یوں میرا ان سے رابطہ ختم ہو گیا۔
جنرل باجوہ نے اس سوال کہ آپ نے عمران خان کی حکومت کیوں گرائی؟‘‘ جواب دیا کہ ہم نے ان کی حکومت نہیں گرائی‘ ہمارا جرم صرف یہ تھا ہم نے ان کی حکومت بچائی کیوں نہیں؟ عمران خان چاہتے تھے ہم آگے بڑھ کر ان کی حکومت بچائیں۔
جاوید چودھری نے لیکھا کہ میں نے پوچھا آپ یہ کر دیتے آپ اس سے پہلے بھی تو یہ کرتے رہے تھے ۔ جنرل باجوہ کا جواب تھا میں اگراپنا فائدہ دیکھتا تو یہ میرے لیے سب سے زیادہ سوٹ ایبل تھا ۔ میں عمران خان کو سپورٹ کرتا رہتا اور عزت کے ساتھ عمران خان سے فیئرویل لے کر ریٹائر ہو جاتا لیکن میں نے ملک کے لیے اپنے امیج کی قربانی دے دی۔
انہوں نے کہا کہ میں نے مشکل لیکن صحیح فیصلہ کیا ۔ ہماری ریڈنگ تھی یہ ( پی ٹی آئی) لوگ ملک کے لیے خطرناک ہیں۔ یہ (عمران خان ) رہے تو ملک نہیں رہے گا۔ عمران خان نے کابینہ کے اجلاس میں سعودی کراؤن پرنس کو پنجابی میں … کہہ دیا ۔ ان کے اپنے وزیر نے یہ بات لفظ بہ لفظ سعودی سفیر کو بتا دی اور سفیر مختلف لوگوں سے ان پنجابی الفاظ کا ترجمہ کرانے لگا۔
جنرل باجوہ نے کہا کہ ہم انہیں شوکت ترین کو وزیر خزانہ بنانے سے روکتے رہے۔ میں نے وزیراعظم سے کہا سر یہ اپنابینک نہیں چلا سکا یہ اکانومی کا بھٹہ بٹھا دے گا لیکن یہ نہ مانے شوکت ترین کے خلاف نیب میں آٹھ ارب روپے کی کرپشن کا کیس تھا وزیراعظم نے الٹا ہم سے کہہ دیا آپ یہ کیس ختم کرائیں ۔ ہم ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف میں پھنسے ہوئے تھے لہٰذا ہم مجبور ہو گئے اور یوں جنرل فیض حمید نے شوکت ترین کے نیب سے کیس ختم کرائے۔ مجھے ایک شام گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر کا فون آیا وہ بہت گھبرائے ہوئے تھے ان کا کہنا تھا شوکت ترین نے اکانومی کو بہت زیادہ ہیٹ اپ کر دیا ہے۔
رضا باقر نے کہا کہ ڈالر کے ریزروز تیزی سے نیچے آ رہے ہیں ۔ ہمیں آپ کی انٹروینشن چاہیے یوں ہم وزیراعظم کے پاس جانے پر مجبور ہو گئے ۔ حماد اظہر، اسد عمر، شوکت ترین اور رضا باقر بھی اس میٹنگ میں موجود تھے۔ میں نے وزیراعظم سے کہا سر آپ 53 فیصد ٹیکس کسٹمز سے جمع کر رہے ہیں ۔ یہ غلط ہے‘ ہم پھنس جائیں گے۔
عمران خان نے کہا کہ یہ تو اچھی بات ہے ٹیکس ریونیو بڑھ رہا ہے‘ میں نے کہا سر آپ ڈالر باہر بھجوا کر روپے جمع کر رہے ہیں‘ ملک اس طرح نہیں چل سکے گا‘ آپ شوکت ترین کو روکیں ورنہ ہم ڈیفالٹ کر جائیں گے۔ رضا باقر نے تائید کی‘ وزیراعظم نے حامی بھر لی لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کیا‘ میٹنگ کے بعد اسد عمر نے میرا شکریہ ادا کیا اور کہا’’آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں‘ ہم غلط سائیڈ پر چل پڑے ہیں آپ نے جو کام ہمیں آج بتائے ہیں یہ ہمیں گزرے ہوئے کل میں کر لینے چاہیے تھے‘
عمران خان اور جنرل باجوہ کی دو ملاقاتوں کے بارے میں جاوید چودھری نے لکھا کہ یہ 18 اگست 2022 کی شام تھی صدر عارف علوی کی صاحب زادی نے رات آٹھ بجے اپنی چند سہیلیوں کو کھانے پر ایوان صدر بلا رکھا تھا لیکن پھر سوا سات بجے فون آیا اور صدر پرائیویٹ کار میں صرف ملٹری سیکرٹری کے ساتھ ایوان صدر سے نکل گئے۔
صدر مملکت کے ساتھ پروٹوکول اور سیکیورٹی کی کوئی گاڑی نہیں تھی ۔ اس رات آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے طویل تعطل کے بعد ان کی پہلی ملاقات ہوئی ۔ صدر عارف علوی کی خواہش تھی آرمی چیف عمران خان سے ملاقات کریں تاکہ دوریاں ختم ہو جائیں۔ صدر اگلی صبح 19 اگست کو فیملی کے ساتھ کراچی چلے گئے لیکن پھر اسی سہ پہر انھیں فون کیا گیا اور یہ فوری طور پر واپس آ گئے۔
ڈاکٹر عارف علوی نور خان ایئر بیس پر اترے اور انھیں پرائیویٹ کار میں پروٹوکول اور سیکیورٹی کے بغیر آرمی چیف ہاؤس لے جایا گیا اور یہ رات ڈیڑھ بجے تک وہاں رہے۔ صدر نے اس رات کھانا بھی جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ کھایا‘ یہ اگلی صبح 20 اگست کودوبارہ کراچی چلے گئے‘ انھیں تیسرا فون کراچی میں آیا اور 22 اگست کی رات آٹھ بجے ایوان صدر میں عمران خان اور جنرل باجوہ کی ملاقات طے ہو گئی۔
ملاقات انتہائی خفیہ تھی ۔ ایوان صدر کا گیٹ‘ لفٹ اور صدر کی رہائش گاہ کو مکمل خالی کرا دیاگیا تھا‘ کھانے کی میز پر چار کرسیاں لگائی گئی تھیں اور کھانا بھی مہمانوں کے آنے سے پہلے لگا دیا گیا تھا اور اس میں بھی یہ خیال رکھا گیا تھا کسی کو کسی سے کھانے کی کوئی چیز نہ مانگنی پڑے اور کسی کو کوئی چیز اٹھانے کے لیے کرسی سے بھی نہ اٹھنا پڑے‘ عمران خان پونے آٹھ بجے شبلی فراز کے ساتھ ایوان صدر میں صدر کی رہائش گاہ پہنچ گئے جب کہ جنرل باجوہ میجر جنرل محمد عرفان کے ساتھ آٹھ بجے پہنچے۔
شبلی فراز اور جنرل عرفان ویٹنگ روم میں بیٹھ گئے‘ یہ ملاقات میں شریک نہیں ہوئے‘ ملاقات 45 منٹ کی تھی اوریہ بری طرح ناکام ہو گئی‘ جنرل باجوہ نے عمران خان سے پوچھا‘ آپ مجھے میر صادق اور میر جعفر سمجھتے ہیں۔آپ پھر مجھ سے کیوں ملنا چاہتے تھے؟ عمران خان کا جواب تھا میں آپ کو نہیں نواز شریف اور شہباز شریف کو میر صادق اور میر جعفر کہتا ہوں‘ عمران خان کا مطالبہ تھا آپ ایم کیوا یم کو واپس لے لیں‘ حکومت گر جائے گی‘ جنرل باجوہ کا جواب تھا‘ میں ایم کیو ایم کو نکالنے والا کون ہوتا ہوں اور فرض کریں اگر ایم کیو ایم نکل بھی جائے تو بھی آپ پارلیمنٹ میں نہیں ہیں۔
پی ڈی ایم میجارٹی کی بنیاد پر دوبارہ حکومت بنا لے گی لہٰذا اس ایکسرسائز کا کیا فائدہ ہو گا؟ ملک مزید تباہ ہو جائے گا مگر عمران خان کا اصرار تھا آپ حکومت توڑدیں‘ یہ لوگ الیکشن پر مجبور ہو جائیں گے‘ جنرل باجوہ نے انکار کر دیا تھا‘ ان کا کہناتھا ملک انارکی کا شکار ہو جائے گا اور کوئی صحیح الدماغ شخص یہ نہیں چاہے گایوں میٹنگ میں ڈیڈ لاک آ گیا اور عمران خان کھانا کھائے بغیر ایوان صدر سے چلے گئے۔
جنرل باجوہ بھی تھوڑی دیر بعد ایوان صدر سے رخصت ہو گئے‘ صدر آخر میں بہت مایوس تھے‘ صدرکے اسٹاف نے میٹنگ کے بعد جہاں جہاں جنرل باجوہ اور جنرل عرفان بیٹھے تھے ان جگہوں کا تفصیل سے جائزہ لیا‘ ان کو خدشہ تھا ’’یہ لوگ‘‘ کہیں کوئی بگنگ ڈیوائس نہ لگا گئے ہوں‘ یہ حرکت بعدازاں رپورٹ ہو گئی اور فوج نے اس پر ٹھیک ٹھاک مائینڈ کیا۔
تین اور 8 ستمبر کو یہ ایکسرسائز دوبارہ دہرائی گئی‘ صدر پرائیویٹ کار میں ایوان صدر سے نکلے اور ان کی اسلام آباد اور راولپنڈی میں دو ملاقاتیں ہوئیں اور عمران خان کی جنرل باجوہ سے دوسری ملاقات ستمبر میں ہوئی۔
جنرل باجوہ صدر سے ہر ملاقات کے دوران صرف ایک ہی بات کرتے تھے آپ عمران خان اور میاں شہباز شریف کو اکٹھا بٹھا دیں‘ تمام سیاسی مسائل کا حل صرف ان کی ملاقات سے نکلے گا‘ صدر نے سرتوڑ کوشش کی لیکن عمران خان نہیں مانے‘ جنرل باجوہ سے عمران خان کی دوسری ملاقات بھی ناکام ہو گئی۔
عمران خان پی ٹی آئی اور پاکستان مسلم لیگ ن کی سیکنڈ لیڈر شپ میں ملاقات کے لیے راضی ہو گئے اور یوں ایاز صادق اور خواجہ سعد رفیق کی اسد قیصر اور پرویز خٹک کے ساتھ ملاقاتیں شروع ہو گئیں‘ ان ملاقاتوں میں بعدازاں اور لوگ بھی شامل ہو گئے اوریہ فارمولا طے ہو گیا‘ دسمبر میں حکومت مستعفی ہو جائے گی‘ میاں نواز شریف کے کیسز ختم ہو جائیں گے اور یہ واپس آئیں گے‘ چھ ماہ کی کیئر ٹیکر حکومت بنے گی‘ الیکشن جون میں ہوں گے۔
سکندر سلطان راجہ الیکشن کمشنر رہیں گے اور جنرل باجوہ الیکشن کے بعد ریٹائر ہوں گے‘ یہ فارمولا ’’وِن وِن سچویشن‘‘ تھی‘ میاں نواز شریف کے کیس ختم ہو رہے تھے‘ عمران خان کو الیکشن مل رہے تھے۔
الیکشن کمشنر کی عزت بحال ہو رہی تھی اور جنرل باجوہ کو آٹھ ماہ ایکسٹینشن دی جا رہی تھی لیکن اس دوران میاں نواز شریف اورجنرل باجوہ کے مشترکہ دوست شجاعت عظیم نے اپنی شبانہ محفل میں اس فارمولے کا ذکر کر دیا‘ یہ بات نکلی اور مختلف حلقوں میں ڈسکس ہونے لگی‘ یہ جنرل باجوہ کے کان تک پہنچی تو انھوں نے ملک محمد احمد کو فون کیا‘ ملک محمد احمد اس وقت ہیتھرو ایئرپورٹ سے باہر نکل رہے تھے۔
جنرل باجوہ نے ان سے کہا ’’میں ایکسٹینشن نہیں لینا چاہتا‘ میں 29 نومبر کو ریٹائر ہو رہا ہوں‘میں اس فارمولے میں نہیں ہوں‘‘ میاں نواز شریف نے بھی بعدازاں یہ فارمولا مسترد کر دیا‘ ان کا کہناتھا میری عزت بحال ہونی چاہیے۔
میں کسی لین دین کے ساتھ ملک واپس نہیں جانا چاہتا‘ دوسری طرف عمران خان کے ساتھیوں نے بھی انھیں سمجھایا‘ آپ نے اگر میاں نواز شریف کو رعایت دے دی تو آپ پر این آر او کا الزام لگ جائے گا اور یوں یہ فارمولا اور ایوان صدر کی دونوں ملاقاتیں ناکام ہو گئیں۔