امریکی صدر جو بائیڈن نے سٹیٹ آف دی یونین خطاب میں کچھ ایسی بات کہی ہیں جو ہماری حکومت اپنے دفاع کیلئے استعمال کر سکتی ہے امریکی صنعت کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے جس کی ایک وجہ کورونا اور دوسری روس یوکرائن جنگ کی وجہ سے فوڈ چین میں خلل اندازی اور تیسری وجہ ملک کے امیر طبقے کا ٹیکس نہ دینا ہے ہماری حکومت یقینا یہ کہے کہ جب امریکا کا یہ حال ہے تو پھر ہم کسی بھی باغ کی مولی ہیں۔ لیکن امریکی حقیقت کا ہمارے ساتھ موازنہ ممکن نہیں کیونکہ ہماری مہنگائی کی شرح 27.5 فیصد والی بات اب پرانی ہوگئی۔ یہاں مہنگائی گھڑی کی سوئیوں کی طرح ہر سیکنڈ کے ساتھ آگے جارہی ہے ماہرین کا کہنا ہے کہ فوڈ پرائیسز میں اضافہ 36 فیصد تک جاپہنچا ہے اور اس میں اضافے کا عمل جاری ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ گزشتہ سال اکتوبر میں اگر بر وقت آئی ایم ایف کے ساتھ 9th Review پر معاملات طے ہو جاتے تو ملک کا اتنا نقصان نہ ہوتا۔ ڈالر کی قیمت کو بے ضابطہ طور پر روک کر رکھنے کی وجہ سے ملکی معیشت میں ڈیڑھ ارب ڈالر کا نقصان ہوا کیونکہ اس سے ترسیلات زر میں کمی ہوئی ہنڈی کے کاروبار میں اضافہ ہوا اور ایکسپورٹرز کو نقصان اٹھانا پڑا۔ بالآخر کئی ماہ کی تاخیر کے بعد ڈالر کو آزاد کرنا پڑا دوسری طرف آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات کا عالم یہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتیں بھی آئی ایم ایف کے کہنے پر کرنا پڑ رہی ہیں۔ بجلی کی قیمت میں حکومت 7 روپے فی یونٹ اضافے پر راضی ہو چکی ہے مگر آئی ایم ایف 12 روپے سے ایک پیسہ کم کرنے پر تیار نہیں۔اس وقت اوسط فی یونٹ ٹیرف 24 روپے ہے جو 36 روپے ہونے جارہا ہے۔کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ کیا ہونے جارہا ہے۔ شاید یہ کالم شائع ہونے تک پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں 50 روپے فی لٹر کا اضافہ ہونے والا ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ 200 ارب روپے کے نئے ٹیکسز پر اتفاق ہو چکا ہے جس سے آنے والے دنوں میں مہنگائی کا نیا ریلا آجائے گا۔
انگریزی محاورہ Recipe of disaster یا تباہی کے اجزائے ترکیبی میں اگر کوئی کمی رہ گئی تھی تو وہ ملک میں جاری سیاسی بحران نے پوری کر دی ہے
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان آگ سے کھیلنے کا شوق اور اس کا اظہار جاری ہے۔ حکومت کی طرف سے الیکشن کو معرض التوا میں ڈالنے کیلئے بہانے بازی ہو رہی ہے جبکہ دو صوبائی حکومتوں کو تحلیل کرنے کے اپوزیشن کے فیصلے بتا رہے ہیں کہ ان کی پوری کوشش ہے کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کے ذریعے حکومت کو ملک چلانے سے روکا جائے یہ بڑی خوفناک صورتحال سے جس کا انجام کبھی اچھا نہیں ہو گا۔
آئی ایم ایف نے اسی اثنا میں پاکستان کی بیورو کریسی کے اثاثے پبلک کرنے کی بات کی ہے جو ٹرانسپیرنسی یقینی بنائے کیلئے معاون ثابت ہوگا یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ آئی ایم ایف نے واپڈا ملاز مین کیلئے فری بجلی کی سہولت، وزراء اور اعلیٰ حکام کیلئے فری پٹرول کی فراہمی سرکاری ائیر لائن پر مفت سفر کی سہولت جیسے کئی دیگر فیصلوں پر اعتراضات اٹھائے ہیں جس کی تفصیلات عوام تک نہیں پہنچے دی جا رہی۔ ان میں پاکستانیوں کے سوئس بنکوں میں پڑے ہوئے 200 ارب سے زائد کے غیر قانونی اثاثے بھی شامل میں جن کو واپس لاکر پاکستان کا قرضہ اتارا جا سکتا ہے مگر اس کیلئے حکومت کو مؤثر لابنگ اور سفارت کاری کی ضرورت ہے مگر آج تک کسی حکومت نے کوشش نہیں کی حالانکہ اس رقم پر اگر انکم ٹیکس کی وصولی کا حق حاصل ہو جائے تو بھی ہمیں سالانہ آئی ایم ایف سے زیادہ پیسے مل سکتے ہیں۔
گزشتہ ایک سال سے اپوزیشن نے بھر پور اور کامیاب کوشش کی ہے کہ ہم نے اس ملک کو چلنے نہیں دینا جس کے تحت قومی اسمبلی سے استعفے دیئے گئے پھر پنجاب اور خیبر پختونخوا حکومتیں ختم کی گئیں بے شمار لانگ مارچ اور جلسے کیے گئے مگر کشمکش ختم نہ ہو سکی اور اب جیل بھرو تحریک کا اعلان کر دیا گیا ہے تاکہ خرابی حالات کا کوئی نسخہ باقی نہ بچے جسے نہ آزمایا گیا ہو۔ اس تحریک سے ملک میں سیاسی افرا تفری میں مزید اضافہ ہوگا اور پولیس اور عدالتوں پر مزید بوجھ بڑھ جائے گا۔ اعلیٰ عدالتیں پہلے ہی سیا سی مقدمات میں بری طرح پھنسی ہوئی ہیں جن میں فارن فنڈنگ تو شہ خانہ اور ٹیریان کیس شامل ہیں عمران خان کہتے ہیں کہ انہیں نا اہل کرا کر نواز شریف کو واپس لایا جائے گا۔ بہر حال اسی انتہائی درجے کی عدم برداشت میں سیاسی مفاہمت کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں معاشی اور سیا سی بحرانوں میں ملک تباہی کے دہانے پر ہے یہ حالات گزشتہ 75 سال میں آج تک دیکھنے میں نہیں آئے۔ پورا سسٹم اور ڈھانچہ منجمد ہو چکا مگر کسی کو اس کی کوئی پروا نہیں۔
اسی اثنا میں سابق صدر اور آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کی موت نے قوم کو مزید منتشر کر دیا جب پاکستان کے سب سے اونچے قانون ساز ادارے سینیٹ میں چیئرمین سینیٹ کی طرف سے ان کی موت پر فاتحہ خوانی یا دعائے مغفرت کی درخواست کی کوشش کی گئی تو انہیں اپنی بات پوری نہیں کرنے دی گئی اور کہا گیا ہم مغفرت کی دعا نہیں کرنے دیں گے پورے ایوان میں شور برپا کر دیا گیا۔ واقعہ سے پاکستان میں عدم برداشت، انتہا پسندی اور سیا سی منافرت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ آپ جو مرضی کر لیں پاکستان کی تاریخ کے اوراق سے 1999ء سے 2008ء تک کا وہ عرصہ حذف نہیں کر سکتے جب جنرل پرویز مشرف اس ملک کے سیاہ سفید کے مالک تھے اور ریاست کے معاملات کے فیصلے کر رہے تھے وہ تاریخ کا حصہ ہے خواہ متنازع ہی کیوں نہ ہو۔ یاد رہے کہ مشرف کے 10 سالہ دور میں ڈالر 60 روپے پر لاک رکھا گیا اور جب وہ اقتدار سے الگ ہوئے تو پاکستان پر قرضہ 30 ارب ڈالر تھا آج ڈالر 279 روپے کا ہے اور قرضہ 130 ارب سے تجاوز کر چکا ہے۔
سنا تھا کہ کسی کے مرنے کے بعد اس کی ساری دشمنیاں اور دوستیاں ختم ہو جاتی میں مگر جنرل مشرف کا معاملہ اس سے مختلف ثابت ہوا۔ جس ادارے کی دی ہوئی وردی کو وہ اپنی کھال قرار دیتے تھے اس نے انہیں مرنے کے بعد تنہا نہیں چھوڑا انہیں ایک سابق سر براہ مملکت کی حیثیت سے پورے فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی تدفین ملیر کینٹ کے اندر کی گئی ہے جہاں کوئی عام آدمی جا ہی نہیں سکتا۔ ان کی قبر کی جگہ متعین کرنے والوں نے کسی ناخوشگوار صورت حال پیدا ہونے کے امکانات کا خاتمہ کر دیا۔ کسی کی موت پر اظہار افسوس ایک انسانی جذبہ ہے اور اس روایت کو زندہ رہنا چاہئے۔ ملٹری کی تاریخ میں امریکی جنرل میک آرتھر کے تاریخی الفاظ کچھ یوں ہیں پرانے سپاہی مرتے نہیں بس آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔